تعلیم، صحت اور انصاف، سب کے لیے یکساں

تعلیم، صحت اور انصاف، سب کے لیے یکساں

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی نہ تو چھ ماہ میں آتی ہے اور نہ ہی جاتی ہے، ملک کی ترقی کیلئے ہمیں چارٹر آف اکانومی پر متفق ہونا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحادی حکومت کو مہنگائی سمیت بہت سے مسائل کا سامنا ہے، مہنگائی کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں جسے جانے میں وقت لگے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کیونکہ ٹھیک دو ہفتے قبل ڈار صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ اکتوبر کے آخر تک ڈالر 200 روپے تک آ جائے گا اور ڈالر کی قدر گرنے سے اشیائے ضروریہ اور توانائی کی قیمتوں پر بھی اثر پڑے گا جبکہ مہنگائی کی شرح 12سے 14 فیصد تک ہو جائے گی۔ اب ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی چند ماہ میں آتی ہے نہ جاتی ہے اس کے لیے لانگ ٹرم اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسحاق ڈار صاحب چوتھی بار وزیرِ خزانہ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں ان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ اقتدار سے باہر رہ کر بھی وہ درپیش معاشی مسائل کا مجوزہ حل پیش کرتے رہے ہیں مگر جب عملی طور پر کچھ کر دکھانے کا وقت آیا ہے تو وہ مہنگائی کے ستائے عوام سے مزید وقت مانگ رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے اس موقف سے اختلاف کی گنجائش کم ہی نکلتی ہے کہ دہائیوں کے مسائل کو چند ہفتوں دنوں میں ختم نہیں کیا جا سکتا مگر سوال یہ ہے کہ اقتدار کی مسند سے دور بیٹھ کر عوام کو جھوٹے دلاسے کیوں دئیے جاتے ہیں ایسے خواب کیوں دکھائے جاتے ہیں جن کی تعبیر ممکن نہ ہو۔ ماضی کی سبھی حکومتوں کا ریکارڈ اس بات کا شاہد ہے کہ بلاتفریق سبھی حکومتوں نے عوامی مسائل کو چند مہینوں چند ہفتوں میں حل کرنے کا خواب دکھایا مگر جب زمامِ کار تھام لی تو یہ باور کرایا جانے لگا کہ مسائل بہت زیادہ ہیں اور حکومت کی استعداد اور وسائل محدود۔ گزشتہ حکومت بھی سو دن میں تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی تھی مگر سوا چار سالہ دورِ اقتدار کے بعد ہاتھ بندھے ہونے اور سسٹم کی تہہ در تہہ خرابی کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس سسٹم کو ٹھیک کرنا اور دوررس پالیسیاں بنانا کس کا کام ہے؟ عوام سیاسی نمائندوں کو اس لیے منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں کہ وہ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں گے مگر سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد اپنے وعدوں کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں اور اصلاحات اور لانگ ٹرم پلاننگ کے بجائے ڈنگ ٹپاؤ اقدامات سے وقت گزاری کرنے لگتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ مسائل حل ہونے کے بجائے دوچند ہوتے جاتے ہیں۔ اس کا ایک تلخ نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ عوا م امیر اور غریب ہو نے کی بنا پر واضح طور پر دو حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔ غریب عوام اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کا جتن کرتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ان کے بچے گورنمنٹ اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ امرا کے بچے پرائیویٹ اداروں تعلیم حاصل کر کے ان اعلیٰ عہدوں پہ براجمان ہو جاتے ہیں، جو غریب بچوں کی دسترس سے اس لیے دور رہ جاتے ہیں کہ انہوں نے گورنمنٹ اداروں سے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ گورنمنٹ اداروں میں نوکری کرنے والے کوئی بھی ہوں، بابو، چھوٹا بابو، گورنمنٹ سکول ٹیچر، پولیس ملازمین، آرمی، گورنمنٹ ڈاکٹر، جج صاحبان، ایم پی اے، ایم این اے، وزیر، کسی بھی گورنمنٹ ادارے میں نوکری ہو اگر اس کے بچے گورنمنٹ سکول کالج کے بجائے پرائیویٹ سکول کالج میں داخل ہیں تو وہ اپنے ادارے اور ملک کا غدار ہیں ایسے افراد کو گورنمنٹ نوکری سے فارغ کر دینا چاہیے جو ادارے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ گورنمنٹ اداروں میں وہی لوگ نوکری کریں جن کے بچے بھی گورنمنٹ سکول کالج یونیورسٹی میں داخل ہیں ورنہ سب فارغ۔ یہ قانون سب کے لیے ہو، پھر غریب کے بچے کو بہتر یکساں تعلیم حاصل ہو گی۔
حقیقت میں یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمارا ملک شدید معاشی مسائل کا شکار ہے، مہنگائی کی شرح 23 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے، ترسیلاتِ زر کا حجم گھٹتا جا رہا ہے اور ڈالر کی قدر میں ایک بار پھر اضافے کا رجحان ہے۔ یقینا یہ مسائل راتوں رات پیدا نہیں ہوئے مگر یہ بھی واضح ہے کہ یہ صورتحال اتحادی حکومت اور اس کے معاشی دماغوں سے مخفی نہیں تھی۔ اس کے باوجود عوام کو یہ دلاسا دیا جا رہا تھا کہ جیسے ہی ڈالر کی بلند پروازی کو کنٹرول کیا جائے گا نصف سے زائد مسائل کا حل نکل آئے گا۔ اس عرصے میں ڈالر کی قدر کو کنٹرول کیا جا سکا اور نہ ہی کسی معاشی ریلیف کا بندوبست ہو سکا۔ اب اگر وزیر خزانہ معاشی میثاق کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں تو اس کا آغاز بھی حکومت ہی نے کرنا ہے۔ حکومت ہی کو پہل کرتے ہوئے اتحادیوں سمیت اپوزیشن کو معاشی معاملات کو سیاست سے الگ کرنے کی تجویز پر اعتماد میں لینا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے میثاقِ معیشت کی بات کی جا رہی ہے مگر عملی طور پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ وزیر خزانہ قوم کو بہلانے کے بجائے حقیقت سے آگاہ کریں اور معاشی معاملات کو سیاست سے الگ کرنے کیلئے زبانی نہیں عملی اقدام کریں۔
بھوک و افلاس کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی سات درجے تنزلی یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ اس وقت ملک میں اشیائے خور و نوش کی مہنگائی، بیروزگاری اور افلاس کا کیا عالم ہے۔ عالمی ہنگر انڈیکس میں پاکستان کو 121 ممالک میں 99 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ رینکنگ 92 تھی۔ رپورٹ میں پاکستان میں غربت کی شرح 26.1 فیصد بتاتے ہوئے اسے سنجیدہ نوعیت کی قرار دیا گیا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک پر نظر ڈالی جائے تو نیپال 81 اور بنگلہ دیش 84 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں سیلاب کے سبب لاکھوں افراد کے بے گھر اور کروڑوں کے متاثر ہونے سے غربت و افلاس میں اضافے کا خدشہ پہلے ہی محسوس کیا جا رہا تھا۔ ورلڈ بینک بھی 59 لاکھ افراد کے خطِ افلاس سے نیچے جانے کے خدشے کا اظہار کر چکا ہے ایسے میں یہ رپورٹ اربابِ اختیار کیلئے چشم کشا ہونی چاہیے اور پالیسی سازی میں ایسے منصوبوں کو نمایاں ترجیح ملنی چاہیے جو لوگوں کو غربت و افلاس اور بھوک کے دلدل سے باہر کھینچ سکیں۔ عالمی امداد پر تکیہ کرنے سے ہمیں روٹی تو شاید میسر آ جائے مگر ہم مچھلی پکڑنے کے ہنر سے نابلد رہیں گے۔ ضرورت اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے اس بحران کا سامنا کرنے کی ہے۔ اگر ہم زراعت کو اپنی ترجیحات میں اولین جگہ دیں تو بھوک کے علاوہ بیروزگاری کا بھی بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں