اُم الفساد

اُم الفساد

سے برتر اور اعلیٰ تصور کرنا شروع کر دے تو غرور کہلاتا ہے، پھر جب اس غرور کا اعمال اور گفتگو کے ذریعے اظہار ہونے لگے تو تکبر بن جاتا ہے۔ خود پسندی، غرور اور تکبر اخلاقِ رزیلہ میں سے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’جس بندے کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا، اس پر ایک شخص نے پوچھا کہ آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس بھی اچھا ہو، جوتے بھی عمدہ ہوں (کیا یہ تکبر میں داخل ہے؟)‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ خود جمیل ہے اسے جمال و نفاست پسند ہے (یہ تکبر نہیں ہے) تکبر تو یہ ہے کہ اتراہٹ کے مارے حق سے ہی انکار کر دے اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے لگے۔ برائی جب کبھی شروع ہوتی ہے غرور اور تکبر کے باعث شروع ہوتی ہے اور برائی کا خاتمہ ہمیشہ انکساری کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ خود پسندی، غرور اور تکبر انسانی دل و دماغ میں جنم لینے والا ایسا مرض ہے جو انسان کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی خوفناک بیماری ہے جو انسان کو تباہی کے دہانے تک لے آتی ہے جس میں مبتلا انسان دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی پوری طرح خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ خود پسندی وہ آفت ہے جو انسان کو عزازیل کی طرح کفر کے دہانے پر پہنچا دیتی ہے۔ موجودہ دور میں ہمارے حکمران بھی خود پسندی و تکبر کا شکار ہیں جس کے باعث غریب عوام شدید کرب سے دوچار ہے۔ من پسند افراد کو خود پسندی کے باعث خلافِ معیار تعینات کرنے اور کرانے میں ہمارے حکمرانوں کا کوئی ثانی نہیں۔ صرف تعیناتی ہی نہیں بلکہ اپنے فوائد کے لیے من پسند قوانین تک مرتب کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔ غرور، تکبر اور خود پسندی نے ہمارے ہاں ایوانوں سے لے کر انسانوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو آج تک کوئی ایک بھی ایسا حکمران نہ مل سکا جو شاہانہ انداز اور خودپسندی کو چھوڑ کر اسلامی طرزِ زندگی اپنا کر قوم کے لیے کوئی مثال قائم کر سکے۔ حکمرانوں کی دیکھا دیکھی ہر گلی، محلے میں ایک ایک خود پسندی میں مبتلا بادشاہ عوام پر گھات لگائے بیٹھا ہے اور یہی ہماری بدحالی اور تباہی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بادشاہ کی بادشاہی اور امیر کی امارت یہ رب العزت کی عطا اور امانت ہیں، اس میں کسی بھی انسان کا کوئی بھی کمال موجود نہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات ہی قادر مطلق ہے، وہ اکیلا ہی عزتوں کا مالک ہے جسے جو چاہے، جب چاہے عطا کر دے۔ آج ہمارے معاشرے میں خود پسندی اور غرور کا عنصر اس قدر نمایاں ہو چکا ہے کہ ہم چاہ کر بھی اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکتے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے ’’زمین پر اکڑ کر نہ چل کیونکہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکے گا‘‘۔ رحمان کے بندوں کے لیے غرور، تکبر اور خود پسندی موت ہے۔ قیامت قائم ہونے کے بعد جب متکبر اور خود پسند لوگوں کو ان کی قبروں سے اُٹھایا جائے گا تو رب ِدو جہاں ان کو اتنا چھوٹا بنا دیں گے جتنا کہ بھورے رنگ کی چیونٹی، لیکن ان کی شکلیں انسانوں جیسی ہوں گی۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں عاجزی اور انکساری سے پیش آنے والے کو کمزور اور مسکین تصور کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو سوچنے اور سمجھنے کی طاقت اور صلاحیت اس لیے دی ہے کہ وہ خود پسندی، غرور اور تکبر میں فرق کر سکیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ غرور اور تکبر درحقیقت خدائے باری تعالیٰ کی حکمت پر اعتراض ہے اور اس ذات کی ربوبیت سے انکار ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے اس نے انکار کیا اور غرور سے کام لیا اور وہ کافروں میں ہو گیا۔ کافر خدا کی رحمت سے محروم رہتا ہے کیونکہ تکبر اور بڑائی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مخصوص ہے اس لیے جو شخص کبریائی اور بڑائی کو اپناتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کو چیلنج کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کو چیلنج کرے وہ انسانیت اور خدائے پاک کی بارگاہ سے دور ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں عنقریب اپنی آیتوں کی طرف سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو روئے زمین پر نا حق اکڑتے پھرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بُرائی، گھمنڈ، غرور، تکبر اور خودنمائی جیسی برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مصنف کے بارے میں