باتیں نہیں صرف کام، کام اور کام

باتیں نہیں صرف کام، کام اور کام

عمران خان کی حکومت جاتے ہی ایسا لگ رہا ہے کہ پوری قوم ترقی کے نام پر ایک سراب کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ سابقہ حکومت کی تمام معاشی پالیسیاں جنہیں وہ اپنی کارکردگی بنا کر پیش کرتے رہے ہیں، دراصل ایک دھوکا تھا۔ ایک ببل اکانومی کو ٹھوس اور مضبوط معیشت بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ نئی شہباز حکومت آنے کے بعد سب سے بڑا چیلنج دگرگوں معیشت کو سنبھالا دینا ہے۔ اس لیے پہلے ہی اجلاس میں ہولناک اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مسلم لیگ ن نے جب 2018 میں حکومت چھوڑی تھی تو ملک 6.1 کی اوسط سے ترقی کر رہا تھا جبکہ نیا پاکستان میں ترقی کی یہ رفتار گر کر 4 فیصد پر آ چکی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ہی دور میں شبانہ روز محنت کے نتیجے میں مہنگائی کی اوسط شرح 4 فیصد تک محدود کر دی گئی تھی۔ نئے پاکستان کے معماروں نے قوم کو 17 فیصد مہنگائی کے سامنے لا کر بے بس چھوڑ دیا ہے۔ 2013 میں مسلم لیگ ن کو پاکستان جس حالت میں ملا تھا۔ جہاں دہشت گردی، بے روزگاری، بھوک اور غربت اپنے عروج پر تھی۔ 5 برس کی جدوجہد کے بعد ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے 2028 تک ترقی کی اس رفتار کے ساتھ پاکستان کو دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں دیکھ رہے تھے۔ لیکن تبدیلی کا آئیڈیا اس قوم کو بہت بھاری پڑا ہے۔ وزارت اطلاعات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں ملک کے اندر صرف 
35 لاکھ لوگ بے روزگار تھے۔ آج 2022 میں یہ تعداد بڑھ کر 95 لاکھ ہو گئی ہے۔ عمران خان نے تو ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن مزید 60 لاکھ بیروزگاروں کا اضافہ کر دیا۔ ساڑھے تین سال پہلے ملک میں خط غربت سے نیچے افراد کی تعداد ساڑھے پانچ کروڑ تھی۔ آج ساڑھے 7 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے آ چکے ہیں۔ ساڑھے تین برس میں مزید 2 کروڑ افراد غریب ہوئے ہیں۔ یعنی ان افراد کو کھانے کے لیے روٹی، سونے کے لیے چھت، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ گیا ہے۔ اچھے اچھے لوگ ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ 50 لاکھ گھر دینا تو درکنار، جن کے 
پاس سر چھپانے کا آسرا تھا وہ بھی فٹ پاتھ پر آ گئے ہیں۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیموں اور رئیل سٹیٹ میں دی گئی چھوٹ سے صرف ایک مخصوص مافیا نے اربوں کھربوں کمائے ہیں۔ غریب پاکستانی منہ دیکھتے رہ گئے ہیں۔ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے بلکہ اس بہتر ہو گا وہ خود کشی کر لیں۔ لیکن وہ آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ قرض لیا گیا۔ موجودہ ملکی قرضے میں 24 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ عمران خان حکومت نے ملکی نظام کا کوئی ایسا شعبہ نہیں چھوڑا جسے زوال پذیر نہ کیا ہو۔ 2018 میں موجود تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر سے 43 ارب ڈالر تک لانے میں کمال کی محنت کی ہے عمران خان کی معاشی ٹیم نے۔ اس وقت ملکی خزانہ کی حالت اس قدر خراب ہے کہ موجود معاشی ٹیم تمام تر چاہت کے باوجود بہت زیادہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ غیر ملکی قرضوں اور سرکلر ڈیٹ کی موجودگی میں عمران خان کی جانب سے پیٹرول سبسڈی اور ٹیکس ایمنسٹی جیسی سکیمیں جاری کرنا دراصل معیشت میں بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف تھا۔ ملک کو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کو ملکی معاشی کشتی کو منجھدار سے نکالنے کے لیے ایک بار پھر آئی ایم ایف کا سہارا لینا پڑے گا۔ غیر مقبول فیصلے کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر کے عوض فیول سبسڈیز، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، ٹیکس ایمنسٹی میں اضافہ کی واپسی سمیت 5 مزید شرائط عائد کر دی ہیں۔ سیاسی پوئنٹ سکورنگ کے لیے سابق وزیر اعظم عمران خان نے پیٹرول پر جو سبسڈی دے رکھی ہے وہ اگلے دو ماہ میں قومی خزانے کو 96 ارب روپے ماہانہ میں پڑیگی۔ خالی خزانہ کسی بھی طرح اس سبسڈی کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔ اس لیے ممکنہ طور پر قوم کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 20 روپے فی لیٹر اضافے کی کروی گولی لینا پڑے گی۔ اس کے باوجود حکومت 30 روپے فی لیٹر سبسڈی جیب سے ادا کرے گی۔ بیڈ گورننس اور نااہلی کی جو روایت عمران خان حکومت نے قائم کی ہے اس کی مثال پورے 75 برس میں کہیں نہیں ملتی۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پستے عوام اس نااہلی کی قیمت ادا کریں گے۔ قومی سلامتی کونسل کے اعلامیے کے بعد سازش سے حکومت گرانے کا بیانیہ دم توڑ گیا ہے۔ اب عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ سکون سے اپوزیشن کریں اور 2023 کے الیکشن کی تیاری کریں۔ عوام کو سکھ کا سانس لینے دیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت کے ساتھ اب میثاق معیشت کے ذریعے ملک کو اس دلدل سے نکانے کی کوشش کریں گے۔ اس ضمن میں دوست ممالک چین اور سعودی عرب اس بحران سے نکلنے کے لیے معاون ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ اس لیے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنا سپیڈ بٹن آن کر لیا ہے۔ اسلام آباد میں اربوں روپے لگا کر بھی ساڑھے تین برس میں میں جو میٹرو پراجیکٹ پایہ تکمیل نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ صرف ایک ہفتے میں شہباز شریف نے عوام کے لیے کھول دیا ہے۔ اب صبح آٹھ بجے ہفتے میں 6 دن تمام وفاقی ادارے کھلیں گے۔ جب وزیر اعظم صبح 7 بجے دفتر پہنچا ہوا ہو گا تو بڑے افسران خود بخود وقت پر دفتر آئیں گے۔ سوچیں تبدیلی کے نام پر کتنا وقت ضائع کیا گیا ہے اس قوم کا؟ بھاشا ڈیم کی تکمیل کا ٹارگٹ 2028 سے 2026 پر لانا صرف شہباز سپیڈ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ شہباز شریف منصوبوں کو وقت کے اندر مکمل کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ ملکی مفاد میں ہے کہ فوری انتخابات کے بجائے اتحادی حکومت کو اپنا وقت مکمل کرنا چاہیے۔ شہباز حکومت کو ڈلیور کرنے کا پورا وقت اور موقع ملنا چاہیے۔ ورنہ یہ ملک کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ بطور وزیراعظم شہباز شریف کی کامیابی میں ایک اہم فیکٹر حمزہ شہباز کی قیادت میں پنجاب حکومت کا فعال کردار ہو گا۔ عثمان بزدار کی کمزور گورننس عمران خان کے گلے کا طوق بن گئی۔ جس طرح سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا موازنہ شہباز شریف کی کارکردگی سے کیا جاتا تھا۔ اسی طرح حمزہ شہباز کو بھی ان کے والد کے گورننس ماڈل کے مطابق دیکھا جائے گا۔ اس لیے تمام تر چیلنجز کے ہوتے ہوئے بھی کسی قسم کی سستی قابل قبول نہیں ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ حمزہ کی صورت میں پنجاب کو ایک نیا خادم اعلیٰ مل سکے گا؟ مسلم لیگ ن اگلا الیکشن جیتنا چاہتی ہے تو پنجاب کو پرفارم کرنا ہو گا۔

مصنف کے بارے میں