پی ٹی آئی کے نئی حکومت کو تحفے

پی ٹی آئی کے نئی حکومت کو تحفے

ان دنوں بیرونی دوروں میں سابق وزیر اعظم کو ملنے والے قیمتی تحائف موضوع بحث، کابینہ ڈویژن کے ذرائع بتاتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کو مختلف ممالک کے سربراہوں نے قیمتی تحائف دیے جن کی مالیت کروڑوں روپے تھی۔ وزیر اعظم نے وطن واپسی پر تحائف کی قیمت لگوائی۔ قیمت لگانے والوں کو اپنی قدر و قیمت کی فکر تھی انہوں نے تحائف کی 20 فیصد رعایتی قیمت لگائی وزیر اعظم نے لوٹ سیل میں سارے تحائف دو کروڑ میں خرید لیے (کچن چلانا مشکل دو کروڑ کہاں سے آئے) کہیں سے بھی آئے ہوں بعد میں انہیں دبئی جا کر مہنگے داموں بیچ دیا گیا۔ کیبنٹ ڈویژن کے ذرائع بتاتے ہیں کہ جن تحائف کی مالیت 30 ہزار روپے یا اس سے کم ہو وہ مفت دے دی جاتی ہے۔ ان میں تسبیح، جائے نماز، شہد کی بوتلیں، بینڈ بیگ اور ڈیکوریشن پیس تو مفت ہاتھ آجاتے ہیں گولڈ آئٹیم قیمتی گھڑیاں، سونے کے ہار، ہیرے جواہرات یا قیمتی گاڑی وغیرہ کی قیمت ایف بی آر یا اسٹیٹ بینک کی مقرر کردہ اسسمنٹ کے مطابق 50 فیصد ادائیگی کر کے خریدی جاسکتی ہیں۔ ماضی میں 30 فیصد ادائیگی کر کے بھی خریداری کی گئی تاہم میاں نواز شریف نے اس کی شرح 50 فیصد کردی تھی۔ بیشتر وزرائے اعظم نے ان تحائف کو ریاست کی ملکیت قرار دیتے ہوئے رعایتی قیمت پر خریداری سے گریز کیا اور یہ قیمتی اشیا توشہ خانے میں پڑی رہیں۔ الزام یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نے سعودی شہزادے کی مشہور زمانہ گھڑی ایک کروڑ 70 لاکھ میں خریدی جبکہ اس کی مارکیٹ ویلیو 8 کروڑ 50 لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ بعد میں یہ گھڑی مبینہ طور پر دبئی جا کر 14 کروڑ میں بیچ دی گئی۔ مریم اورنگزیب کے مطابق عمران نے جتنا توشہ خانے سے کمایا زندگی بھر میں نہیں کمایا۔ دو مہینوں میں گفٹ بیچ کر 8 کروڑ 75 لاکھ کمائے۔ انہوں نے 20 فیصد پر تحائف خریدے منی ٹریل دینی ہوگی۔ عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ بیرونی ملکوں سے ملے تحائف واپس توشہ خانے میں رکھے جائیں سابق وزیر اعظم رعایتی قیمت پر خریدے گئے ان تحائف کی تفصیلات ظاہر کریں۔ معمولی رقم دے کر تحائف گھر لے جانے کی روایت اچھی نہیں۔ دو کروڑ کی منی ٹریل، رقم ڈکلیئر کی گئی یا نہیں بات بگڑ سکتی ہے۔ فواد چودھری کے نزدیک تحائف گھر لے جانا کوئی بڑی یا بری بات نہیں۔ آدھی قیمت ادا کردی گئی۔ سرکاری اداروں کے تخمینے اور مارکیٹ ویلیو میں کتنا فرق ہوتا ہے اس کا اندازہ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والے جانتے ہیں 30 لاکھ میں خریدا گیا پلاٹ 4 کروڑ میں بک جاتا ہے حالات پر منحصر ہے سابق وزیر اعظم پر کیا مقدمہ بن سکتا ہے یہ سوچ قبل از وقت ہے فی الوقت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد برسر اقتدار آنے والی مخلوط حکومت کو ان بے شمار ’’تحائف‘‘ کے بارے میں سوچنا ہے جنہیں شاہد خاقان عباسی نے بارودی سرنگ اور نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایٹم بم قرار دیا۔ یہ تحائف مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، کھربوں کے قرضوں، بد انتظامی، تباہ شدہ معیشت، تشدد، گالم گلوچ کی شکل میں نئی حکومت کو ملے ہیں نئی حکومت کے مطابق گزرنے والے 3 سال 7 ماہ ملک پر بھاری گزرے ہیں سب کچھ گروی رکھ دیا گیا۔ قرضے اتریں گے نہ ہمارے اثاثے واپس ملیں گے واسطہ سود خور عالمی مالیاتی ادارے سے پڑا ہے۔ اسی کی شرائط پر قرضے ٹکڑیوں میں ملے ہر قسط کی ادائیگی کے وقت بجلی گیس پیٹرول جیسی عام اشیا کی قیمتوں میں 
اضافہ کی شرط عائد کی گئی۔ کشکول پکڑ کر سخی داتا کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے والوں کو شرائط ماننا پڑتی ہیں نتیجہ ہولناک اور ایٹم بم کی شکل میں ظاہر ہوا اشیائے خور و نوش سمیت ہر چیز کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی۔ معیشت وینٹی لیٹر پر پڑی ہے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعتراف کیا کہ حکومت کی کئی معاشی پالیسی ہی نہیں تھی کمال ہے پورا ملک جگاڑ پر چلتا رہا۔ عمران خان کی اقتصادی مشاورتی کمیٹی کے ایک سابق رکن کے مطابق روپے کی قدر خاک میں ملنے اور ڈالر سمیت کرنسی بحران سے بچنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہ ہوئی۔ وقت اور سرمایہ احمقانہ اسکیموں میں ضائع کیا گیا اوسط آمدنی میں صفر اضافہ توازن ادائیگی بد ترین بحران کا شکار ہوگئی۔ زر مبادلہ صرف گیارہ ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر آگیا کرنٹ خسارہ 21 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ موجودہ اخراجات 7.5ٹریلین تک پہنچ گئے۔ برآمد 23 ارب درآمدات 49 ارب کم و بیش 37 ارب کی تو لگژری گاڑیاں درآمد کی گئیں۔ پانی، نمک، مرچ، مصالحے، غرض اس ملک کی کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ فرانس امریکہ سے منگوائی جاتی ہیں، بس یہ ملک اچھا لگتا ہے جہاں راوی عیش لکھتا ہے۔ لگتا تھا قارون کے خزانے پر بیٹھے عیش کر رہے ہیں معاشی چیلنجز کی بنیادی وجہ بد انتظامی، ’’نہ جانے کس گھڑی کیسی خطائیں ہوگئیں ہم سے، ہمیں ہر موڑ پر رسوائیاں آواز دیتی ہیں۔‘‘ کیا یہ درست نہیں کہ 3 سال 7 ماہ میں 20 ہزار ارب سے زائد قرضہ لیا گیا۔ عوام کا سارا خون مہنگائی نے چوس لیا۔ حکمران غیر ملکی تحائف سے گھر بھرنے میں مصروف رہے اس تمام عرصہ میں پوری قوم کو ’’چوروں ڈاکوئوں‘‘ کے پیچھے لگا دیا گیا۔ فواد چودھری نے کہا 26 وزراء ضمانت پر ہیں کسی پر الزام ثابت ہوا ہو تو اسے جیل میں ڈال دیں، نہیں ہوسکا عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ نے ضمانت پر رہا کردیا تو اسے گھومنے پھرنے کی آزادی ہونی چاہیے چوہدری صاحب اس غم میں دن بدن موٹے کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر شبلی فراز کے والد محترم نم باکردار شاعر۔ (اللہ انہیں جنت الفردوس میں اچھا مکان عطا فرمائے) احمد فراز نے کہا تھا ’’میں نے تو اپنے تن کا لہو پیش کردیا۔ اے شہر یار تو بھی تو اپنا حساب دے۔‘‘ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمیں اس سال قرضے کی مد میں 32 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔حکومتیں پوری تیاری کے ساتھ برسر اقتدار آتی ہیں یہاں کوئی تیاری نہ پالیسی، منہ اٹھا کر چلے آئے اور منہ پھلا کر چلے گئے۔ اس مختصر عرصہ میں 51 بلین ڈالر کا نقصان کیا گیا روپے کی قدر گھٹانے اور شرح سود میں اضافہ سے مہنگائی کا طوفان آیا۔ 2018ء سے پہلے کی حکومت مہنگائی کو 4 فیصد پر لائی تھی۔ مہربانوں نے مہنگائی کو 19 اور 21 فیصد تک پہنچا دیا۔ 23 کروڑ میں سے کم و بیش ایک کروڑ فکر معاش سے آزاد امیر کبیر گھرانوں کے کھلنڈرے نوجوانوں کو چھوڑ دیجئے۔ یہ سابق حکومت کا اثاثہ اور قوت ہیں اور رہیں گے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں کی رونق ان ہی کے دم قدم سے ہے گرائونڈ بھر دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ 22 کروڑ عوام کا کیا حال ہے۔ مہنگائی سے لوٹ مار، ڈکیتیاں، سائبر کرائمز میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اوپر کی مہربانی اور ہلہ شیری سے تشدد، مارپیٹ سمیت ہر جرم کو جائز قرار دے دیا گیا۔ چراغوں نے اپنا مزاج بدلنا شروع کیا اور مصلحتوں کی حدود سے نکل کر بغاوت کا فیصلہ کیا۔ وہی فیصلہ قیامت کا فیصلہ ثابت ہوا اپنے بغاوت کرجائیں اتحادی ساتھ چھوڑ دیں تو پی ڈی ایم کیا کرے۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے 172 کی گنتی پوری ہوگئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز قومی اسمبلی میں ہنگامہ، عدالتیں تو کھلنا تھیں جیل وین نے آنا ہی تھا۔ پنگے شروع ہوگئے بعد میں جو کچھ کیا گیا سر پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا سب کچھ آئین کے مطابق تھا۔ عدالتیں رات 12 بجے کیوں کھولی گئیں۔ جیل وین پارلیمنٹ کے سامنے کیوں آئی۔ سب کچھ آئین کے مطابق ہوتا تو ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں آتی۔ پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ ہوگئی۔ وزیر اعلیٰ آسمان اور زمین کے درمیان اٹکے بلکہ لٹکے ہوئے ہیں۔ آنے والے پریشان کہ سابق حکومت سے ملنے والے تحائف سے کیسے نمٹیں۔ سابق حکمران پشیمان تک نہیں بلکہ شہر شہر جلسوں میں عوام کو برگشتہ کرنے میں مصروف جلسوں میں کتنے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ بر صغیر کے سب سے بڑے جلسے میں کتنے شریک تھے جتنے تھے اتنے نہیں ہیں جتنے ہیں اتنے نہیں رہیں گے۔ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے والا ہے کیا ہوگا؟ رات دن گردش میں ہیں سات آسمان، ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ جن سے چندے ان سے پنگے، سابق وزیر اعظم کی پریشانی کے دن آرہے ہیں یا ختم ہو گئے شیخ رشید ہمیشہ کی طرح تاریخیں دینے پر اتر آئے ہیں بولے  30 مئی تک پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہوجائے گی انشاء اللہ نہیں کہا اس لیے یقینی نہیں۔ تاہم ان باتوں بلکہ سب کی باتوں سے پریشانی کا اظہار ہوتا ہے۔ غالب بھی اللہ بخشے اسی طرح پریشان رہا کرتے تھے۔ ’’بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل، جو تیری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا‘‘ وزیر اعظم ہائوس سے نکلنے والے ہر شخص کو اسی قسم کی پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے۔

مصنف کے بارے میں