سوشل میڈیا کی اجارہ داری

سوشل میڈیا کی اجارہ داری

خان صاحب کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس کے سپورٹرز اس کی ہر ادا پر فریفتہ ہیں۔ وہ صحیح کرے تو ٹھیک غلط کرے تو بھی ٹھیک۔ اس پر تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ وہ ایک سیاسی لیڈر سے بڑھ کر کوئی چیز ہے اور یہ سارا اعجاز اس سوشل میڈیا کا ہے جس پر خان صاحب نے خوب سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بیرون ملک سے پیسہ اکٹھا کیا اور یہاں سوشل میڈیا پر انویسٹ کر دیا اور اس کے پھل پھول آنا شروع ہو چکے ہیں۔ سیاں جھوٹ بولے تو زیادہ خوبصورت لگتا ہے سو سب لگے ہوئے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سوشل میڈیا مینجمنٹ میں پی ٹی آئی کا کوئی ثانی نہیں۔ یہاں ایک فوج ظفر موج اس کے بیانیہ کو کچھ سوچے سمجھے بغیر آگے بڑھا رہی ہے۔ کچھ لوگوں کے تو یہ پیٹ کا مسئلہ ہے کہ ان کا چورن اسی وقت بکے گا جب وہ عمران خان کی محبت کے ترانے گائیں گے۔ اسی دوڑ میں روایتی میڈیا بھی چل رہا ہے اور چونکہ اس روائیتی میڈیا کے یو ٹیوب چینلز موجود ہیں تو اس کا بلیک آوٹ کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ ہر مہینے اس سے کروڑوں کا کاروبار کررہے ہیں۔ جھوٹ اور سچ کی جانچ کے لیے ایک باقاعدہ میکنزم کی ضرورت ہے جو یہاں موجود نہیں ہے۔ فیک اکاونٹس بنا کر لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے پاکستان میں بہت آسان ہے۔ اے آر وائی بند ہوا اور اب دوسرے میڈیا ہاوسز کو عمران خان کے ایجنڈے کو صبح شام پروموٹ کرنے میں مصروف ہیں ان پر بھی تلوار لٹک رہی ہے۔ ان تمام چینلز کی ایڈیٹوریل پالیسی کون تشکیل دے رہا ہے؟ جب معاملہ بندش کا آتا ہے تو اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دے دیا جاتا ہے۔مالک چونکہ ایڈیٹوریل پالیسی بنانے میں مکمل اختیار رکھتا ہے اس لیے وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے تین چار افراد کو اسی کام پر لگا دیتا ہے جو صبح شام اس کی چاکری کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ سچ ہے ان کا فرمایا ہوا۔ ایک چینل میں اگر چار ہزار ملازمین کام کرتے ہیں اور چینل بند ہونے کی صورت میں یہ بے روزگار ہو جاتے ہیں تو مطالبات کیے جاتے ہیں کہ پابندیوں کو ہٹایا جائے یہ کوئی نہیں کہتا کہ اگر یہ سب مطالبات کیے جا رہے ہیں تو اس بات کی بھی ذمہ داری لیں کہ جو مواد نشر ہو گا وہ صحافتی اصولوں کی پاسداری اور قوانین کے اندر رہ کر جائے گا۔ شہباز گل کا جو بیپر ہوا ہے اور جس میں ایک بار بھی اینکر نے مداخلت نہیں کی کیا اسے یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ یا تو آپ کا ایڈیٹوریل کنٹرول موجود ہی نہیں یا آپ اس بیانیے سے پوری طرح متفق ہیں۔ ایک اور صورت بھی ہو سکتی ہے کہ آپ نے کسی کو چینل ٹھیکے پر دے دیا ہے اور وہ جو مرضی چلائے۔ اے آر وائی کے بند ہونے کی تکلیف ضرور ہے مگر اے آر وائی بھی یہ بتائے کہ جو ہوا وہ کیونکر ہوا اور اسے کس کی آشیر باد حاصل تھی۔ 
اس ملک میں چینل بنانے والوں کے مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس میں کام کرنے والے کو تنخواہ ملتی ہے یا نہیں۔ ان کے ذرائع آمدن بھی اور ہوتے ہیں اور کئی تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے کاروبار کو تحفظ دینے یا اپنی اپنی غیر قانونی کاروائیوں کو چھپانے کے لیے میڈیا کا سہارا لے رکھا ہے۔ جمیل فاروقی اینکر ہے اور اسے کراچی سے گرفتار کیا گیا ہے وجہ سب جانتے ہیں لیکن اب اگر ان کے پاس شہبازگل کی وہ ویڈیو موجود ہے 
جس کو انہوں نے اپنے یو ٹیوب چینل پر بیان کیا ہے تو وہ اداروں کو پیش کریں مگر زیب داستان کے لیے لوگوں کو بے وقوف بنانے کا کاروبار کیا صحافتی اقدار کے عین مطابق قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کی گرفتاری کو آزادی اظہار رائے کہنا غلط ہے لیکن اسی طرح ان پر جو تشدد ہوا وہ بھی غلط ہے۔ ایک درجن سے زائد لوگ صبح شام عمران خان کے لیے جھوٹ پھیلانے کا کاروبار کر رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سنا ہے کہ اب سوشل میڈیا اتھارٹی بنائی جا رہی ہے جو ان تمام چیزوں کو مانیٹر کرے گے۔ یہاں پر جھوٹ پھیلانے کی کوئی سزا مقرر نہیں۔ کچھ بھی نہ کریں ہتک عزت کا وہ قانون یہاں بھی لاگو کر دیں جو برطانیہ میں ہے تو سب سیدھے ہو جائیں گے۔ آزادی اظہار رائے بھی متاثر نہیں ہو گی اور ہر کوئی بولنے سے پہلے تولے گا۔
بات ہو رہی تھی عمران خان کی۔ اب اس کے سپورٹرز کہہ رہے ہیں کہ اس نے توہین عدالت نہیں کی۔ جس طرح اس نے عدلیہ کی خاتون جج کو مخاطب کیا ہے وہ ان کے نزدیک دھمکی ہے نہ ہی توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ اس مسئلہ کو اس لیے سنجیدگی سے لے رہی ہے کہ اگر اس کا نوٹس نہ لیا گیا تو پھر ماتحت عدلیہ عدم تحفظ کا شکار ہو جائے گی اور عدالتیں آزادی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دینے سے قاصر رہیں گی۔ توہین عدالت کا معاملہ آیا ہے تو ان کو یاد آ گیا ہے کہ بین الاقوامی انڈیکس میں پاکستان کی عدلیہ کا نمبر 130واں یے۔ کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ عمران خان کو توہین عدالت میں چند سیکنڈ کی سزا بھی ہو گئی تو پانچ برس کی نااہلی ہو جائے گی۔ یہ معاملہ اس لیے سیریس ہے کہ اس کا نتیجہ تین چار سماعتوں میں ہی آ جائے گا اور عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ اسے مزید لٹکا سکیں۔
اسے یوتھیوں کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان ایک پارٹی کا سربراہ ہے اسے تو شہنشاہ معظم کے رتبے پر فائز ہونا چاہیے تھا کہ کوئی ان کے حکم کو نظر انداز نہ کر سکتا۔ ان کا کہا ہوا ہی قانون ہوتا۔ اپنے مرضی سے قاضی مقرر کرتا اور اپنی مرضی سے فوج کا سپہ سالار مقرر کرتا۔ ترکی ڈرامہ ارتغل نے عمران خان اور ان کے فالورز کی ذہن سازی میں بہت کام کیا ہے۔ وہ بھی ارتغل بننے کے لیے تمام تر تیاری کیے بیٹھے تھے کہ امریکی سازش ہو گئی اور وہ اقتدار سے محروم ہو گئے۔ اب وہ دو تہائی اکثریت سے واپس آ کر ارتغل بننے کے خواب کی تکمیل کر سکیں گے۔ 
توہین عدالت کے حوالے سے میں نے ایک سروے کنڈکٹ کروایا ہے۔ یہ سروے سوشل میڈیا پر کیا گیا۔ سروے کا سوال تھا کہ کیا عمران خان کو توہین عدالت کے مقدمہ میں نا اہل کر دیا جائے گا؟ اس سروے کا رزلٹ بہت دلچسپ ہے۔13 فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ عمران خان نے توہین عدالت کی ہے اس لیے وہ نااہل ہو جائیں گے۔15 فیصد نے کہا کہ بالکل نہیں کس میں جرات ہے کہ وہ انہیں نا اہل کرے اور 71 فیصد نے کہا کہ وہ نااہل اس لیے نہیں ہو سکتے کہ انہوں نے توہین عدالت کی نہیں ہے۔ یہ یقینی طور پر وہی لوگ ہوں گے جو ان کے طرز تخاطب کو معمول کا حصہ مانتے ہیں۔
عمران خان کے ماننے والے اور دوسری پارٹیوں کے فالوورز میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ محبان عمران خان سوشل میڈیا کو ایک مذہبی فریضے کی طرح لیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ جہاد میں شریک ہیں جبکہ دوسری جماعتوں کے کارکن اس قدر شدت پسند نہیں ہیں۔ 
لسبیلہ ہیلی کاپٹر کے بعد فوج کے خلاف جو گمراہ کن مہم چلائی گئی اس میں 178 اکاونٹس پی ٹی آئی کے نکلے ہیں۔ اب ان کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ گمان یہی ہے کہ حکومت اور مقتدر قوتیں اس سانحہ کی وجہ سے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر کریک ڈاون کرنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس کارروائی سے وہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی اجارہ داری کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ سچ پوچھیں تو ابھی تک حکومت عمران خان کے بیانیے کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہی ہے۔ اب اس کا یہ ہتھیار کامیاب ہوتا ہے کہ ایک بار پھر اسے ناکامی ہوتی ہے اس کا اندازہ اگلے ہفتے تک ہو جائے گا۔
اور معزز قارئین آپ سے بھی درخواست ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو ہرگز نہ بھولیں اور کسی کے برانگیختہ کرنے پر کوئی ایسی ویسی پوسٹ نہ کریں کہ اس کا خمیازہ آپ کو آپ کے گھر والوں کو بھگتنا پڑے۔ آپ عمران ریاض ہیں نہ جمیل فاروقی ، صابر شاکر ہیں نہ ارشد شریف۔ آپ گرفتار ہوئے تو یقین رکھیں کہ آپ کے پیچھے صرف آپ کے گھر والے ہوں گے۔ انقلاب کا خمار ایک ہی رات میں اتر جائے گا۔ اس لیے احتیاط لازم ہے۔

مصنف کے بارے میں