اسلام آباد بم دھماکہ

اسلام آباد بم دھماکہ

اسلام آباد میں ہونے والے بم دھماکے نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم سیاسی بکھیڑوں میں الجھے ہوئے ہیں اور دشمن ہمیں اندر سے کمزور کر کے بے دست و پا کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ اگر کار سواروں کو نہ روکا جاتا تو وہ کسی ہائی ویلیو ٹارگٹ سے جا ٹکراتے اور پھر نقصان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان ابھی اس ٹیکنالوجی سے کوسوں دور ہے کہ ان گاڑیوں کا سراغ لگا سکے جو اسلحہ یا گولہ بارود لے کر شہر کے اندر گھومتی ہیں۔ ایک دور میں یہ سنا گیا تھا کہ شہروں کے داخلی راستوں پر سکینر لگائے جا رہے ہیں مگر ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ سکینر لگے ہیں یا منصوبہ صرف فائلوں تک ہی محدود ہے۔ حال یہ ہے کہ سیف سٹی کے جو کیمرے لگائے گئے تھے وہ بھی خال خال ہی کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے جتنے میٹرو پولیٹن ہیں وہاں کا چپہ چپہ ان کیمروں کی زد میں ہونا چاہیے تھا مگر سیف سٹی کے کیمروں نے انسداد دہشت گردی کا کام کیا کرنا تھا فوری طور پر ٹریفک پولیس والوں نے چالان دینا شروع کر دیے۔ وہ سلسلہ بھی اب بند ہے کہ شہر میں لگائے گئے کیمرے خراب ہو چکے ہیں اور ان کی مرمت نہیں ہوئی یا انہیں تبدیل نہیں کیا گیا۔ ان حالات میں سڑکوں پر سکینر لگانا ایک بڑا منصوبہ ہے لیکن چونکہ یہ قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے تو اس پر عملدرآمد میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اسلام آباد میں ہونے والے کار بم دھماکے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کے لیے مراسلہ جاری کر دیا گیا ہے۔ آٹھ رکنی یہ جے آئی ٹی اس دھماکے کی تحقیقات کرے گی۔ چیف کمشنر اسلام آباد کو جے آئی ٹی بنانے کی سفارش ڈی آئی جی کی جانب سے کی گئی، مراسلے کے مطابق جے آئی ٹی کی سربراہی ایس ایس پی محکمہ انسداد دہشتگردی کریں گے، 3 ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) بھی جے آئی ٹی کا حصہ ہوں گے۔ تفتیشی افسران کے علاوہ حساس اداروں کے 2 افسران بھی جے آئی ٹی کا حصہ ہوں گے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے خودکش دھماکے کے بعد حفاظتی اقدامات کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت میں 15 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس یہ اطلاع موجود تھی کہ اسلام آباد کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے 2 روز قبل ہی اسلام آباد پولیس نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایگل سکواڈ نے خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کے بعد حفاظتی اقدام کے تحت 2 ہزار سے زائد مشکوک افراد، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو چیک کیا۔ دہشت گردوں نے اسی طرح کام کیا جس کی اطلاع پولیس کے پاس موجود تھی۔ صبح سوا 10 بجے ایک مشکوک ٹیکسی آ رہی تھی جس میں ایک مرد اور ایک خاتون سوار تھے، پولیس کے ایگل سکواڈ نے مشکوک سمجھتے ہوئے انہیں روکا اور ان کی تلاشی لی، ابھی مشکوک افراد کی جامہ تلاشی جاری تھی کہ ایک لمبے بالوں والا لڑکا واپس گاڑی میں آیا اور اس نے گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے 2 دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ایک پولیس اہلکار شہید ہو گیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی۔
تحریک طالبان ایک عرصہ سے خود کو خیبر پختونخوا میں منظم کر رہی ہے اور صوبے کے مختلف مقامات پر مسلح حملے کر رہی ہے۔ چند دن پہلے ہی بنوں میں سی ٹی ڈی کے دفتر پر قبضہ کیا گیا اور وہاں پر موجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یرغمال بنال لیا گیا۔ بعد ازاں ایک آپریشن کے ذریعے 25 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ سات نے خود کو حکام کے  حوالے کر دیا۔ بنوں کے واقعہ سے پہلے بھی ٹی ٹی پی تسلسل سے خیبر پختونخوا کو نشانہ بنا رہی تھی۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں اضافہ ایک اہم پوسٹ پر تعیناتی کے بعد ہوا۔ اب تو نام لیا جا رہا ہے کہ جب جنرل فیض کو کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا اس کے بعد سے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ ایک آڈیو ٹیپ جو سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی میں ایک دہشت گرد بتا رہا تھا کہ کس طرح انہیں اجازت ملی ہے کہ وہ مختلف علاقوں میں اپنے آپ کو منظم کریں۔ پاکستان کامیابی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کریڈٹ لیتا ہے تو اب اسے فرنٹ فٹ پر آ کر اس ناسور کی بیخ کنی کرنی چاہیے۔ ان نرسریوں کو تلف کرنا پڑے گا جہاں پر یہ پودے تیار ہوتے ہیں ورنہ یہ لوگ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ ٹی ٹی پی نے یہ بات تو ثابت کر دی کہ وہ اسلام آباد تک پہنچ گئے ہیں اور ملک کے دوسرے حصے بھی ان کی نگاہ میں ہیں۔ چاروں صوبوں کو اپنی سکیورٹی کو ہائی الرٹ پر رکھنا ہو گا ورنہ یہ کارروائی کہیں بھی ہو سکتی ہے۔ دہشت گرد اب ملک کے دور دراز علاقوں سے نکل کر بڑے شہروں کا رخ کر سکتے ہیں اور اپنے دائرہ کار کو بڑھا سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں دہشت گردی کی کارروائی کرنے کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ وہ کسی بھی جگہ پر اپنی کارروائی کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ جیسے جیسے پاکستان کی سیاسی صورتحال بگڑ رہی ہے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا دہشت گرد حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے اپنی کارروائیوں میں اضافہ کر رہے ہیں یا ان کا تعلق کسی طریقے سے ملک میں بگڑتی صورتحال کے ساتھ بھی ہے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہی ٹی ٹی پی ہے جس کے ساتھ خیبر پختونخوا کی حکومت مذاکرات کر رہی تھی۔ صوبے کے وزیراعلیٰ خود یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ صوبے کے مالی حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ وہ پولیس کے لیے اسلحہ بارود خریدنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ جو مذاکرات ہوئے ہیں ان سے عوام کو آگاہ کیا جائے کہ کن امور پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ کے پی کی حکومت کے وزرا پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ خود ٹی ٹی پی کو بھتہ دیتے ہیں تا کہ ان پر حملہ نہ ہو۔ کیا یہ اس بات کا اعتراف نہیں ہے کہ کے پی میں ٹی ٹی پی پولیس سے زیادہ طاقتور ہے۔ سوات میں لوگوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف مظاہرے کیے اور یہ اعلان کیا کہ عوام دہشت گردوں کے ساتھ نہیں اور نہ ہی وہ انہیں قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وزیرستان میں بھی عوامی ریلیاں نکالی گئی ہیں لیکن اس کا کھوج لگانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ وہ کون سے مقامات ہیں جہاں پر ان دہشت گردوں کو پناہ مل رہی ہے۔
وفاق اور صوبے میں کشیدہ تعلقات کا براہ راست اثر دہشت گردی میں اضافہ کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ وفاق یہ کہہ رہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے انسداد دہشت گردی محکمہ کی صلاحیت میں اضافے کی اشد ضرورت ہے جبکہ وہاں کے وزیر اعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ دہشت گرد ہمارے دروازوں تک پہنچ گئے ہیں اور وفاق اور صوبہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر بری الزمہ ہونے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
دہشت گردی سے لڑنا کسی ایک کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ جب تک ہم یکجا ہو کر اس کا مقابلہ نہیں کریں گے انہیں شکست سے دوچار کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ٹی ٹی پی کو ہمارے ارد گرد کے ممالک سے امداد مل رہی ہے ان کی رسد کے رستے مسدود کرنا ہوں گے اور بین الاقوامی برادری کو اس ناسور سے آگاہ کرنا ہو گا۔ افغانستان کے طالبان کے ساتھ بھی خود کو انگیج کرنا ہو گا جنہوں نے یقین دہانی کرائی تھی افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی لیکن بدقسمتی سے پاکستان کو مطلوب افراد افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور وہاں پر موجود تربیتی کیمپوں میں دہشت گردی کی تربیت دی جا رہی ہے۔ پولیس، انسداد دہشت گردی کے اداروں اور فوج کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ اور ان کے خلاف جنگ کی استعداد کو بڑھانا ہو گا۔ اس میں کوتاہی ایک بہت بڑا قومی المیہ بن سکتا ہے۔