افسر شاہی میں سیاسی مداخلت!!

افسر شاہی میں سیاسی مداخلت!!

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جو سیاسی سرکس کئی ماہ سے جاری ہے اگر کوئی سیاسی جماعت اس کا کریڈٹ لینا چاہے تو شوق سے لے لیکن ایک عام شہری کے لیے یہ سب کچھ ایک تماشے اور اقتدار کی ہوس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہاں پے در پے وزیر اعلیٰ تو ایسے تبدیل ہوتے ہیں گویا کوئی بچوں کا کھیل جاری ہو۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ مستقبل قریب میں رکتا ہوا نظر بھی نہیں آتا۔ یعنی اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی یہ سیاسی ہلچل جاری رہے گی اور شائد ایک دو مرتبہ وزیر اعلیٰ بھی تبدیل ہو جائے۔
ویسے تو بطور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب کے ساڑھے تین سالہ دور میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی لیکن اس کے بعد جب سے صوبہ میں سیاسی افراتفری اور بے یقینی بڑھی ہے اعلیٰ سرکاری افسران کی پوسٹنگ ٹرانسفر بھی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں۔ شاید اس سارے عمل کہ وجہ ہماری بیوروکریسی اور دیگر سرکاری ملازمیں کا ضرورت سے زیادہ سیاسی ہونا بھی ہے۔
بلاشبہ سیاسی سوچ رکھنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اسی حق کے تحت بیوروکریسی کو بھی اپنی رائے رکھنے کا اختیار ہونا چاہیے، لیکن اگر یہ سوچ اور خیال ان کے سرکاری فرائض پر اثر انداز ہونے لگیں تو یہ کسی بھی طور مناسب بات نہیں۔ کتنا نامناسب اور افسوسناک ہے یہ امر کہ ہمارے سرکاری ملازمین بھی ریاست کے وفادار ہونے کے بجائے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ دھڑے بازی میں یقین رکھتے ہیں۔ چونکہ ہمارے بیشتر سیاستدان عملی طور پر حکومتی امور سے بالکل ہی نابلد ہیں اس لیے انہیں اپنی کم علمی اور نالائقی کی پردہ پوشی کے لیے قابل اعتماد بیوروکریٹس کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی سول سیکرٹریٹ میں تعیناتی کے لیے اہلیت سے زیادہ متعلقہ وزیر، وزیر اعلیٰ یا پھر حکمران پارٹی کے سربراہ کا وفادار ہونا زیادہ ضروری ہے۔
چونکہ یہ سوچ اور رویہ ہی غلط ہے اس لیے ضروری تھا کہ اسے کسی نہ کسی سطح پے بریک لگانے کی کوشش کی جاتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا، اور اب بات بڑھتے بڑھتے بیوروکریسی اور دیگر سول سرکاری میں سیاسی تعیناتیوں کی حد سے بھی آگے نکلتی جا رہی ہے۔ اب تو ہمارے سیاستدانوں (بالخصوص ایک خاص سیاسی پارٹی کے سربراہ) کے حوصلے اس حد تک کھل گئے ہیں کہ وہ نہ صرف عسکری اداروں کے انتظامی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر بضد بھی ہو جاتے ہیں۔
ابھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایک سابق وزیر اعظم نے ایک حساس خفیہ ادارے کے سربراہ کی تعیناتی (اگرچہ عسکری ادارے میں پوسٹنگ اور ٹرانسفر ایک روٹین کا عمل ہے) کو کئی ماہ تک متنازع بنائے رکھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنی تمام تر ضد بازی کے باوجود شرمندگی اٹھانے کے بعد اپنی اس روش سے باز رہنے کا فیصلہ کر لیتے۔ لیکن صد افسوس انہوں نے ایسا نہیں کیا اور آج بھی عسکری اداروں اور ان میں تعیناتیوں کو متنازع بنانے کی روش پے قائم ہیں۔
کوئی کام سہواً غلط ہو جانے کو تو غلطی تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر جانتے بوجھتے ہوئے کوئی غلط کام بار بار کیا جائے تو اس ڈھٹائی یا بلنڈر کا نام دینا چاہیے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب کو اگرچہ آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلی جنس) کے سربراہ کی ٹرانسفر کے معاملات میں شرمندگی اٹھانے کے بعد اس بات کا بخوبی اندازا ہو جانا چاہیے تھا کہ بطور ایک سیا ستدان انہیں عسکری فیصلوں میں ایک حد سے زیادہ مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن بجائے اس کے کہ وہ کوئی سبق سیکھتے انہوں نے اگلے مرحلہ پر اس سے بھی بڑا بلنڈر مارا اور پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی کو متنازع بنانے کی پوری کوشش کرتے رہے۔
موصوف اپنی ان حرکات کی توضیحات بھی عجیب و غریب قسم کی پیش کرتے تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ حکمران جماعت اپنی پسند کے جنرل کو آرمی چیف لگانا چاہتی ہے تاکہ وہ ان (عمران خان) کے خلاف ایکشن کرا سکیں تو کبھی کہتے تھے کہ تعیناتی کے لیے بالکل پرفیکٹ جنرل کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔ اس قسم کی گفتگو یقینی طور پر عسکری ادارے اور عوام کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ خان صاحب اپنی سیاست گردی کے چکر میں اس بات کو بالکل ہی نظر انداز کرتے چلے گئے کہ سپہ سالار کی تعیناتی خالصتاً پیشہ ورانہ طریقہ سے ہوتی ہے جس کے تحت پانچ ٹاپ لیفٹیننٹ جنرلز کی فہرست وزیر اعظم کو بھجوائی جاتی ہے اور وہ ان میں سے ایک کا انتخاب کر کے اسے چیف آف آرمی سٹاف تعینات کر دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں کسی ایک جنرل کے انتخاب کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ باقی جنرلز کم محب وطن ہیں یا پیشہ ورانہ طور پر کسی سے کم ہیں۔
یہ تو خیر اہم ترین پوسٹنگ کا معاملہ تھا لیکن ہمارے خان صاحب تو صوبائی سیکرٹریز اور آئی جی کی تعیناتی کے معاملات میں بھی مداخلت اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ انتہائی مضحکہ خیز صورتحال ہے پنجاب کی انتہائی مخدوش امن و اماں کی صورتحال کے باوجود عمران خان صاحب کی پارٹی کی پنجاب میں حکومت کے تقریباً چار سال میں آٹھ آئی جی پولیس تبدیل ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ میں دلچسپ امر یہ ہے کہ کوئی بھی آئی جی اپنے عہدہ پر ایک سال کی مدت پوری نہیں کر سکا یعنی اوسطاً ایک آئی جی کے حصہ میں تقریباً چھ ماہ آتے ہیں۔ ان آٹھ میں سے دو اصحاب، راؤ سردار علی اور فیصل شاہکار، ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے خود ہی اس عہدہ پر برقرار رہنے سے معذرت کر لی۔ اس وقت نویں آئی جی محمد عامر ذوالفقار صاحب نے پنجاب پولیس کی کمان تو سنبھال لی ہے لیکن صوبے میں چل رہی سیاسی بے یقینی اور عمران خان صاحب کی غیر مستقل مزاجی انہیں کب تک اس عہدہ پر قائم رہنے دیتی ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اب جانے کس سیانے کے مشورے پر خان صاحب یہ سب کچھ کرتے ہیں لیکن اگر کچھ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے تو کوئی بھی اس بات سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ جب تک کسی بھی فورس کے سربراہ کو مناسب وقت اور اختیارات نہیں دیے جائیں گے تب تک اس سے اچھی آؤٹ پٹ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اب پنجاب پولیس کے سربراہ کی پے ردپے تبدیلیوں کے پیچھے خان صاحب کی کیا منطق ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ویسے تو چند ماہ میں موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر رہی ہیں۔ اس کے بعد پہلے عبوری حکومت اور پھر نئی منتخب حکومت ایکشن میں ہو گی۔ آئندہ عام انتخابات میں جانے کس پارٹی کی کتنی سیٹیں آئیں گی اور کس فارمولے کے تحت نئی حکومتوں کا قیام ہو گا لیکن بالفرض اگر عمران خان صاحب کسی بھی سطح پر دوبارہ حکومت میں آتے ہیں تو انہیں یہی مشورہ ہو گا کہ اداروں کا سربراہ میرٹ پر جسے مرضی لگائیں لیکن اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ کسی کو بھی کوئی ذمہ داری دیں تو پھر اس پر اعتماد کرتے ہوئے اسے کارکردگی دکھانے کے لیے مناسب وقت اور اختیارات بھی دیں۔