”عدالتی فیصلے کے بعد۔۔“

”عدالتی فیصلے کے بعد۔۔“

 عدالتی فیصلے بعد پی ڈی ایم او ر گورنر پنجاب بلیغ الرحمان اس حد تک کامیاب رہے ہیں کہ پنجاب اسمبلی برقراررہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ایسا بحران پیدا نہ ہو جس کے نتیجے میں ایک نیا میدان لگ جائے مگر اس کے باوجود مسلم لیگ نون کو اس پر فیصلے پر بہت سارے تحفظات ہیں۔ سب سے بڑا ایشو یہ ہے کہ حکومت کی بحالی حتمی فیصلے سے مشروط ہونی چاہئے تھی جو عبوری فیصلے سے کر دی گئی ہے اور دوسرے یہ کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو اعتماد کے ووٹ کے لئے وقت کا پابند نہیں کیا گیا۔ یہ فیصلہ ماضی قریب کے ان بہت سارے فیصلوں کی طرح ہے جس کا آئین، قانون اور انصاف سے کچھ خاص تعلق نہیں، ہاں، تمام فریقوں کو ضرور خوش کردیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر کہتا ہے کہ گورنر کا حکم معطل کر دیا گیا ہے مگریہی فیصلہ ایک انڈرٹیکنگ کے بعد دیا گیا ہے جس میں وزیراعلیٰ پنجاب نے عدالت کویقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے۔ میں نے بہت سارے ماہرین قانون سے پوچھا ہے کہ آئین اور قانون کے تحت فیصلے دینے کی پابندعدالتیں کیا وزیراعلیٰ کے آئینی اختیار کو استعمال نہ کرنے کی پابندی لگا سکتی ہیں تو اس کا جواب ہے کہ نہیں اور یہی بات تحریک انصاف کہہ رہی ہے کہ عدالت کے فیصلے اس حصے سے اسے اتفاق نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب حمزہ شہباز شریف کو وزارت اعلیٰ مشروط طور پر مل سکتی ہے اور اس کو تحریک انصاف اور قاف لیگ اپنی کامیابی کہہ سکتے ہیں تو پھر پرویز الٰہی کو مشروط طور پر کیوں نہیں مل سکتی؟
اس فیصلے کی ایک تشریح یہ ہے کہ اس میں صرف عمران خان ناکام رہے ہیں یعنی پرویز الٰہی اب اسمبلی نہیں توڑ رہے۔ پرویز الٰہی اسمبلی توڑیں گے مگر وہ اس کے لئے وہ پہلے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے تو یہاں سوال یہ ہے کہ گورنر پنجاب نے آئین کے آرٹیکل ایک سو تیس کی سب کلاز سیون کے تحت وزیراعلیٰ سے کیا کہا تھا، یہی کہا تھا کہ وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ لیں جس کے بعد وزیراعلیٰ مکمل آزاد ہوتے اور جمعے کے روز اسمبلی توڑ دیتے۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے اعتماد کاووٹ کیوں نہیں لیا۔ مسلم لیگ نون اس کی تشریح یہ کر رہی ہے کہ وزیراعلیٰ کے پاس مطلوبہ ارکان ہی موجود نہیں ہیں۔ خواجہ عمران نذیر کہہ رہے تھے کہ اسمبلی کی لابی میں پی ٹی آئی کے ارکان خود عمران خان کو تارا مسیح کے نام سے پکار رہے تھے یعنی وہ اسمبلیوں کو پھانسی دینا چاہتے ہیں۔ دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ خود وزیراعلیٰ کہہ رہے تھے کہ حکومتی پارلیمانی پارٹی کے ننانوے فیصد ارکان اسمبلیاں توڑنے کے خلاف ہیں تو اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ بہت سارے ارکان ہمت کر کے اس موقعے پر ’ابسٹین‘ بھی کر سکتے ہیں اگرچہ ان سب کو بتا دیا گیا ہے کہ اگر کسی نے اختلاف کی جرات کی تو اسے عمران خان پارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیں گے۔
عمران خان کے بیانات سے یہ لگتا ہے کہ وہ اسمبلیاں توڑنا چاہتے ہیں مگر پی ڈی ایم، پرویز الٰہی اور اب عدالت ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان واقعی اسمبلیاں توڑنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ ایسا چاہتے ہوتے تو تقریر کرتے ہوئے فوری طورپر وزرائے اعلیٰ سے اسمبلیاں تڑوا دیتے مگر انہوں نے مخالفین کوسات دن کا وقت دیا کہ وہ اسمبلیاں توڑنے کی راہ کھٹی کر دیں اور ایسا ہی ہوا۔ دلیل یہ بھی ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی میں ان کے دئیے ہوئے وقت کے میں توقع کے عین مطابق یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے تو ان کے ارکان قومی اسمبلی جا کے استعفے کیوں نہیں دے رہے جس کا فیصلہ کیا گیا تھا اور وہ ساتھ ہی خیبرپختونخوا کی اسمبلی کیوں نہیں توڑ رہے جہاں تجزیوں کے مطابق وہ آسانی سے دوبارہ جیت کے حکومت بھی بناسکتے ہیں۔ اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ عمران خان بھی اسمبلیاں نہیں توڑنا چاہتے وہ صرف دباو بڑھانے کی سیاست کر رہے ہیں مگر تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ ٹی وی کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے سے عمران خان کے اس عملی یوٹرن کے باوجود ان کی مقبولیت متاثرنہیں ہوگی۔ وہ درست کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کی مقبولیت ان کی لیک آڈیوز سے متاثر نہیں ہوسکتی تو پھر اسمبلیاں توڑنے کے حوالے سے عملی طور پر یوٹرن توکوئی شے ہی نہیں ہے۔
میرا ایک آئینی سوال یہ بھی ہے کہ کیا وزیراعلیٰ کا اسمبلیاں توڑنے کا اختیار حتمی ہے یعنی وہ سفارش کریں اور اسمبلیاں ٹوٹ جائیں تو بظاہر ایساہی نظر آتا ہے مگر دوسری طرف ہمارے کچھ ماہرین اسے نوے کی دہائی کے اٹھاون ٹو بی کے صدارتی اختیار سے جوڑتے ہیں جس میں صدر کو ثابت کرنا پڑتا تھا کہ ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے جن کے مطابق اسمبلیاں اور حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکتے تھے اور ان کا توڑدینا ہی قومی مفاد میں تھا۔ عملی تشریح یہ ہے کہ اگر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ایسا کوئی اقدام کرتے ہیں تو اسے کسی بھی دوسرے اقدام کی طرح عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور وہاں اسمبلیاں توڑنے والے کواپنے فیصلے کاجواز دینا پڑے گا، اسے درست ثابت کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی یہ خواہش بطور دلیل پیش ہوسکتی ہے کہ آئینی ادارے توڑ کر وفاقی حکومت پر پریشر ڈالا جائے کہ وہ بھی قبل از وقت انتخابات کی طرف آجائے۔ میرے خیال میں یہ کوئی جواز اوردلیل نہیں ہے۔ یوں بھی دیکھا جائے تو پرویز مشرف کے دور سے اب تک تمام اسمبلیوں نے اپنی مد ت پوری کی ہے۔یہ ضرور ہے کہ اس دوران وزرائے اعظم تبدیل ہوتے رہے جیسے مشرف دور میں جمالی، شجاعت اور شوکت عزیز، زرداری دور میں یوسف رضا گیلانی اور پھر راجا پرویز اشرف، نواز شریف دور میں ان کے بعد شاہد خاقان عباسی اور اب عمران خان کے بعد شہباز شریف۔ اگر ہم ان تمام وزرائے اعظم کی تبدیلی کے عمل کو دیکھیں تو اس تبدیلی میں ہمیں صرف ایک مرضی نظر آتی ہے اور وہ ہے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور خواہش۔
اس عدالتی فیصلے کا جتنا مرضی دفاع کر لیا جائے مگر یہ فیصلہ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کی خواہش اورمنشا پوری کرتا نظر آتا ہے کہ مرکز میں شہباز شریف کی حکومت رہے اور پنجاب میں پرویز الٰہی کی۔ اسٹیببلشمنٹ چاہتی ہے کہ پرویز مشرف دور سے جاری روایت اب بھی برقرار رہے یعنی اسمبلیاں قائم رہیں لہذا یہ فیصلہ اس چاہت کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور انڈر ٹیکنگ لیتا ہے چاہے اس کا کوئی آئینی اور قانونی جواز ہویا نہ ہو۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ فوری طور پر پرویز الٰہی کو اعتماد کے ووٹ کی مشکل میں ڈالا جائے بلکہ انہیں پورا وقت ملے کہ وہ اپنے ناراض ارکان کو منا سکیں تو یہ فیصلہ اس کی بھی گنجائش دیتا ہے۔بس ہماری جمہوریت اسی قسم کی ہے اور اسی قسم کو ملحوظ اور برقراررکھنے کے لئے ہمارے پاس ایسے ہی فیصلے آتے رہے ہیں اور ابھی کئی عشرے ایسے ہی فیصلوں کے ساتھ گزریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ جب ہمارے بچوں کے بچے ہوں تو یہاں کا ریاستی نظام اور سیاسی ماحول بدل جائے کہ امید پر دنیا قائم ہے۔