قبضہ مافیا اور پاکستانی سیاست

قبضہ مافیا اور پاکستانی سیاست

ہمارے معاشرے پر قبضہ مافیا کا راج ہے کراچی کی عوام بالخصوص اور پاکستان کی عوام بالعموم ان حالات سے بخوبی واقف ہے کہ اگر کسی شہری کی پراپرٹی پر قبضہ ہو جائے تو اسے چھڑانا عام شخص کے لیے ناممکنات میں سے ہے ریاستی ادارے ایسی صورتحال میں مجبور شہری کی مدد کرنے کے بجائے قبضہ مافیا کے مددگار ہوتے ہیں یہی صورتحال پاکستانی سیاست کی بھی ہے پاکستان کے بیشتر حلقہ انتخاب میں اس علاقے کا سب سے مضبوط شخص ہی الیکشن جیتتا ہے جس کی مٹھی میں اس حلقہ کے اہم سیاسی مہرے ہوں جو کہ الیکشن والے دن عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے پولنگ اسٹیشن تک لائیں ، ریاستی مشینری پر کنٹرول،دہن، دھونس، دھاندلی،غنڈہ گردی اور بدمعاشی الیکشن جیتنے کے اجزاء ضروری ہیں۔


ریاستی ادارے جو کہ ایک علاقائی اور چھوٹے قبضہ مافیا شاہ رخ جتوئی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو پاکستان کے سب سے بڑے قبضہ مافیا کو کیسے کے تابع لاسکتے ہیں، حکمران جماعت کی جارحانہ حکمت عملی کے بعد ادارے بھی بیک فٹ پر کھیل رہے ہیں آنے والے الیکشن سے پہلے پانامہ کیس سے کچھ نکلتادیکھائی نہیں د ے رہا ایسے میں کوئی عوام سے یہ توقع رکھے کہ وہ آنے والے الیکشن میں اس قبضہ مافیا سے پاکستان کو بازیاب کرائے گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اپوزیشن کو دیر سہی آخر اس بات کا ادراک ہو ہی گیا، پنجاب جو کہ حکومت سازی میںساٹھ فیصد کردار ادا کرتا ہے اس پر شریف خاندان کا قبضہ اتنا مضبوط ہے کہ اسے چھڑانے کے لیے تمام جماعتوں کو ایک ہونا پڑے گا۔ ماڈل ٹاوُن کیس اس وقت پاکستانی سیاست کا فوکس پوائنٹ ہے جس نے اپوزیشن کو ایک ہونے کا موقع فراہم کیا اس کاوش پراگر ڈاکٹر طاہرالقادری کی حکمت اور تدبر کی داد نہ دی جائے تو زیادتی ہوگی۔ اپوزیشن کا اتحاد پاکستانی سیاست میں نیا نہیں اس سے پہلے بھی اپوزیشن، حکومت وقت کے خلاف مل کر جدوجہد کرتی رہی ہے لیکن نوابزادہ نصراللہ خان کے بعد یہ پہلی بار ہوا ہے۔

17 جنوری کا جلسہ جسے حکومت اپنی حکمت عملی کے تحت عوامی پاور شو کے طور پر پیش کررہی ہے دراصل پاکستان عوامی تحریک نے ایک حکمت عملی کے تحت عوامی طاقت دکھانے کا انتظام کیا ہی نہیں تھا اور اطلاع کے مطابق اس جلسہ میں لاہور کی تنظیموں کو ہی بلایا گیا اور دیگر شہروں کے کارکنان کو تیار رہنے کا اشارہ کیا گیا۔ عوامی تحریک جو کہ اکیلے مینار پاکستان میں بغیر کرسیوں کے لاکھوں افراد کا نظارہ کراچکی ہو اور جس کے کارکن اتنے کمٹڈ ہیں کہ وہ ایک کال پر کسی بھی جگہ جمع ہوجاتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مال روڈ نہ بھر سکیں۔ پی ٹی آئی پاکستان کے تمام شہروں میں بڑے اجتماعات کرتی رہی ہے اور پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی اتنی گئی گزری نہیں کہ عوامی طاقت نہ دکھا سکیں۔


اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے لیڈران کا ایک سٹیج پر جمع ہونا اپوزیشن کی بڑی کامیابی ہے جلسہ کے پہلے مرحلہ کے اختتام تک تمام کرسیاں بھری ہوئی تھیں جلسے کے پہلے فیز کے اختتام اور کئی گھنٹوں کی تھکاوٹ کی وجہ سے عوام کا کرسیوں سے اٹھنا بشری تقاضا ہے۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اختلافات انکی اپنی سیاست کا حصہ نظر آتا ہے جس میں یہ جماعتیں اپنی ضرورت اور کارکنوں کو چارج رکھنے کے لیے اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کی قیادت کا اپوزیشن کی جماعتوں سے ملنا اور جلسے میں شرکت اس بات کی غماز ہے کہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ انہیں پنجاب میں دوبارہ کچھ حصہ حاصل کرنے کے لیے نواز شریف کے خلاف ماڈل ٹاوُن کیس میں ایکٹیو کردار ادا کرنا چاہئے۔


عمران خان اور شیخ رشید کے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے پر پیپلز پارٹی کا ردعمل اور سند ھ میں مذمتی قرارداد ایک پلاننگ کا حصہ لگتی ہے ایسے عمل سے ہی پیپلز پارٹی اپنے کارکنوں کو مطمئن اورالیکشن لڑنے والے امیدواروں کو دوسری پارٹیوں میں جانے سے روک سکتی ہے۔


حکمران جماعت جو کہ خود ریاستی اداروں فوج اور عدلیہ پر تنقید کی مہم چلارہی ہے اور حقیقی معنوں میں ان اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجارہی ہے انکا پارلیمنٹ پر لعنت والے جملوں پر تنقید کرنا تیرا کتا ، کتا میرا کتا ٹومی کے مترادف ہے۔


پارلیمنٹ کے ممبرز عوام کے خادم ہیں جن کو عوام ریاستی امور چلانے کے لیے منتخب کرتی ہے اور اس خدمت پر انہیں تنخواہ بھی دی جاتی ہے اس کا مطلب پارلیمنٹ عوام کے خادموں کا ایک ادارہ ہے اسکی حیثیت اسکے کردار اور آئین کے مقرر کردہ قوائد و ضوابط پر عمل سے مشروط ہے اگر اس پارلیمنٹ نے عوام کی بہبود کے لیے آئین میں دیئے گئے اختیارات کے مطابق کام کیا تو وہ سرخرو ہوئی ورنہ اس نے امانت میں خیانت کی۔ ملک اور عوام کی حالت زار تو یہی حقیقت آشکار کررہی ہے کہ امانت میں خیانت کی گئی ہے اور پارلیمنٹ بطور ادارہ حکومت کا مواخذہ کرنے میں ناکام رہی ہے یہی وجہ ہے کہ عدلیہ نے نواز شریف کو نااہلی کا کلنک لگایا ہے اب یہ فیصلہ عوام پر چھوڑتا ہوں کہ وہ ایسی پارلیمنٹ اور اسکے نمائندوں کے بارے میں کیا گمان رکھتے ہیں ۔

مصنف کے بارے میں

دیار عمان میں مقیم ہیں اور مملکت خدادا کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں