2018 کے انتخابات دیکھنے کے لیے  ماضی  کے 10 معروف سیاستدان دنیا میں موجود نہیں

 2018 کے انتخابات دیکھنے کے لیے  ماضی  کے 10 معروف سیاستدان دنیا میں موجود نہیں

اسلام آباد: پاکستان کے متعدد معروف سیاستدان جو ماضی میں انتخابی عمل کا حصہ رہے اور 2013 کے عام انتخابات کا بھی مشاہدہ کیا لیکن اب 2018 کے انتخابات دیکھنے کے لیے وہ دنیا میں موجود نہیں۔ان میں سے کئی آخری سانس تک سیاست میں متحرک رہے جبکہ کچھ سیاست سے کنارہ کشی اختیارکر چکے تھے۔ ذیل میں گزشتہ انتخابات سے حالیہ انتخابات کی مدت کے دوران انتقال کرنے والے چند مشہر سیاستدانوں کا ذکر موجود ہے۔
مخدوم امین فہیم
سندھ کے علاقے ہالہ سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی ) کے مشہور و معروف رہنما جو پارٹی کے سینیئر وائس چیئرمین بھی تھے، 21 نومبر 2015 کو کینسر کے باعث دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔مخدوم امین فہیم نے پارلیمانی سیاست میں 1970 سے ہونے والے عام انتخابات سے قدم رکھا اور مسلسل 8 انتخابات میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ کامیاب بھی ٹہرے، اس کے ساتھ وہ روحانی تحریک سروری جماعت کے سربراہ بھی تھے جس کے دنیا بھر میں 9 لاکھ سے زائد مرید ہیں۔
شجاع خانزادہ
پاک فوج میں کرنل کے منصب پر فائز رہنے والے شجاع خانزادہ 16 اگست 2016 کو ایک خودکش حملے میں جاں بحق ہوئے، اپنی وفات
 کے وقت وہ پنجاب کے وزیر داخلہ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔شجاع خانزادہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد 1996 میں سیاست میں قدم رکھا اور 2002 سے لے کر 2013 تک مسلسل 3 انتخابات میں کامیاب ہو کر صوبائی اسمبلی کا حصہ بنے۔شجاع خانزادہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک مزاحمتی آواز تھے۔
معراج محمد خان
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں شامل بائیں بازو کی سیاست کے انتہائی سرگرم کارکن رہنے والے سینیئر سیاستدان معراج محمد خان 21 جولائی 2016 کوعلالت کے باعث اس دنیا سے کوچ کر گئے۔معراج محمد خان نظریاتی طور پر سوشلسٹ تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وزیر افرادی قوت بھی بنے، بعد ازاں 1977 میں اختلافات کے باعث پی پی پی سے علیحدہ ہوگئے اور ضیالحق کے دور میں ایم آر ڈی کا بھی حصہ رہے۔1998 میں وہ پاکستان تحریک انصاف کے پہلے جنرل سیکریٹری بنے تاہم 2003 میں الگ ہو کر کمیونسٹ پارٹی پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی۔
نصراللہ شجیع
جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر نصراللہ شجیع 2 جون 2014 کو طلبہ کے سیاحتی دورے کے دوران ایک طالبعلم کو بچاتے ہوئے بالاکوٹ کے قریب دریائے کنہار میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔نصراللہ شجیع کراچی کے ایک ٹان کے ناظم بھی رہے اس کے علاوہ 2002 میں رکن سندھ اسمبلی بھی منتخب ہوئے، حادثے کے وقت وہ ایک نجی اسکول میں پرنسپل کے عہدے پر فائز تھے۔بعدازاں صدر ملکت ممنون حسین کی جانب سے بہادری کے اس کارنامے پر انہیں تمغہ شجاعت بعد از مرگ سے نوازا گیا۔
جہانگیر بدر
پاکستان پیپلزپارٹی کے ابتدائی دور میں وابستگی اختیار کرنے والے جہانگیربدر 14 نومبر 2016 میں اپنی آخری سانس تک پارٹی سے منسلک رہے، وہ یونیورسٹی کے زمانے سے ہی سیاسی طور پر سرگرم تھے۔جہانگیر بدر قومی اسمبلی کے رکن کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے بھی رکن بنے، اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں کئی وزارتوں کا منصب بھی سنبھالا۔ اس کے علاوہ وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹوں کے چیئرمین بھی رہے۔انہوں نے ضیاالحق اور برویز مشرف کے دورِ آمریت میں اسیری بھی کاٹی وہ 1999 سے پی پی پی کے جنرل سیکریٹری مقرر تھے۔


نواب خیر بخش مری
صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مزاحمتی اور قوم پرست سیاست کی علامت سمجھے جانے والے نواب خیر بخش مری نے 11 جون 2014 کو دنیا کو خیر باد کہا۔بائیں بازو کے نظریات سے متاثر نواب خیر بخش مری نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ اور مری قبیلے کے سردار تھے، جنہیں ان کے مخالفین سخت مزاج کے رہنما کے طور پر جانتے تھے۔انہوں نے 1970 میں ون یونٹ کیخاتمے کے بعد بلوچستان سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی، اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایک لاکھ ووٹ حاصل کیے جو بلوچستان میں ریکارڈ تھا، وہ افغانستان میں کافی عرصے تک جلا وطن بھی رہے۔
شعیب بخاری
متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما اور طویل عرصے تک رابطہ کمیٹی کے رکن رہنے والے ایڈوکیٹ شعیب بخاری نے 19 جولائی 2016 کو اس دنیا کو خیر باد کہا۔شعیب بخاری 1992 کے بعد سے متعدد مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی رہے اور کئی مقدمات میں عدالتوں کا سامنا کیا، 2005 کے زلزلے کے بعد ایم کیو ایم کی فلاحی تنظیم خدمت خلق نے ان کی سربراہی میں متاثرہ علاقوں میں امدادی کام کیا۔
میر ہزار خان بجارانی
پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی اور صوبائی وزیر میر ہزار کان بجارانی نے اپنی اہلیہ کو قتل کرنے کے بعد یکم فروری 2018 کو اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔میر ہزار خان بجارانی کا تعلق کشمور کے گاں کرم پور سے تھا جبکہ ان کی اہلیہ فریحہ رزاق کراچی کی رہائشی تھیں، اس معاملے کی ابتدائی تحقیقات میں جائے وقوع اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اسے خودکشی کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔لیکن اس کے پیچھے وجوہات کا آج تک علم نہ ہوسکا۔
رسول بخش پلیجو
سندھ سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف سیاستدان اور بائیں بازو کی تنظیم عوامی تحریک پیپلز موومنٹ کے بانی رسول بخش پلیجو نے 7 جون 2018 کو دنیا کو الوداع کہا۔انہوں نے سیاسی زندگی کے تقریبا 11 سال مختلف جیلوں میں گزارے، کوٹ لکھپت جیل میں قید کے دوران انہوں نے ایک ڈائری بھی لکھی، جو سندھی زبان میں بہت مقبول کتاب رہی۔رسول بخش پلیجو نے سندھی زبان میں 26 کتابیں بھی لکھیں، ان کی کتابیں 'رسول بخش پلیجو کی مکمل تحریریں' کے نام سے تین جلدوں میں شائع کی گئیں۔
جام ساقی
سال 2018 میں ہی سندھ کے ایک اور سپوت نے 5 مارچ کو دنیا کو الوداع کہا، اشتراکی نظریے کے حامی جام ساقی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری رہے اور بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ بھی بنے۔انہوں نے اپنی زندگی کے 15 سال اسیری میں کاٹے، اس دوران ان پرلگائے گئے الزامات اخبار میں پڑھ کر ان کی اہلیہ نے خود کشی کرلی تھی۔