حکمراں ہے اک وہی ……

Amira Ahsan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

ذی الحج کا مبارک عشرہ انسانی تاریخ کی بے مثل داستان اپنے جلو میں لاتی ہے۔ ہماری خوش نصیبی کہ آدم علیہ السلام تا ایں دم مستند ترین کتاب ہدایت، لاریب، شک وشبے سے بالاتر عظیم ترین کرداروں کا نمونہئ عمل ہمارے سامنے رکھتی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے خانوادے کا ہر عمل حج میں عبادت بن کر امت کی رہنمائی اور تربیت کا سامان بنتا ہے۔ 
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ 
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
 آج دل کی مردنی کے اسباب بہت بڑھ چکے۔ حج، خلیل اللہ کے نقش قدم پر لمحہ لمحہ توحید اور اللہ کی کبریائی سے روح کو چارج کرنے کا سبب بنتا ہے۔ خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے۔ سو اس زندگی کا سامان امت کی یک جائی میں لاشریک لک، تکبیر تشریق کی پکار میں مضمر ہے۔ ان الحمد والنعمۃ لک والملک۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ساڑھے چار ہزار سال قبل یہ گھر بناکر جو منادی دی، اللہ نے قرآن میں ہمیں پکارا۔ (آل عمران۔ 97) وارفتگی سے پگھلے، محبت میں ڈوبے دل کی پکار جواب دیتی ہے۔ لبیک! حاضر ہوں، میرے مالک میں حاضر ہوں! تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ مزید یہ اقرار کہ ساری تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، ساری نعمتیں تیری ہی عطا ہیں۔ اقتدار، بڑائی، بزرگی، برتری، خدائی، بادشاہی صرف تیری ہی ہے۔ دنیا کے ہر دائرے کے جھوٹے خداؤں کا انکار، سب بادشاہوں کے بادشاہ کا اقرار اس پکار کی روح ہے۔ حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری! 
اس زمین پر حکمرانی تیرا ہی حق ہے۔ اس کا اعلان ونفاذ ہر مسلمان کا فرض! برسرِ زمین اللہ کی حکمرانی قرآن وسنت کے ذریعے قائم کرنا ہر مسلمان کے کلمہئ توحید اور لبیک کی پکاروں کا حاصل! یہ الگ بات کہ حج کی حقیقت سے واقف کفر، اس سے کمال درجے لرزیدہ ہے۔ سو عجب تو نہیں کہ دنیا بھر میں کھیلوں پر ہجوم ساری تدابیر بھلائے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہیں۔ کورونا کا خطرہ انہیں لاحق نہیں۔ خطرات مرتکز ہیں تو حج، عمرے، مساجد پر! انبیاء کی تاریخ کے حق وباطل کے سبھی معرکے عالم اسلام کی زمین پر بیس سال لڑے گئے۔ افغانستان میں نمرودی پکار، ’حرقوہ‘ کا نعرہ لگاکر دور حاضر کے نمارود وفراعنہ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔ یاد رہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی بت شکنی کا ردعمل تھا یہ: ’جلا ڈالو اسے‘۔ سو اکیسویں صدی کا ردعمل بھی ایمان اور شریعت کی حکمرانی پر ڈٹ جانے والوں کے لیے یہی تھا۔ جلا ڈالنے کو ایجاد کیے جانے والا ہر بم، میزائل آزما ڈالا۔ ہیل فائر میزائل، مو آب (بم)، عراق (فلوجہ) میں ویت نام کے بعد لڑے جانے والی (Phantom Fury) ’غیظ وغضب کا بھوت پریت‘ نامی ہولناک جنگ جس میں ممنوعہ مواد فاسفورس استعمال ہوا۔ فرعون کی زبان میں انہوں نے کہا: یہ کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکنا رہنا ہے۔ اس طرح ہم انہیں ان کے باغوں اور چشموں اور خزانوں اور بہترین قیام گاہوں سے نکال لائے۔ یہ تو ہوا ان کے ساتھ۔ اور بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث بنا دیا۔ (الشعراء۔ 54-59)
 ساتھ ہی انہوں نے اسلام کا چہرہ بدلنے کا علی الاعلان ڈول ڈالا۔اسلام کا چہرہ (قرآن وسنت) بدلنا تو ممکن نہ تھا، مسلمان ضرور بدل گئے۔ نفاق کی کھیتیاں امت میں کھمبیوں کی طرح اگ آئیں۔ شاہ فیصل کے دیس میں نظام صلوٰۃ پر خط تنسیخ پھیرنے اور شریعت کے احکام درجہ بہ درجہ مملکت سے ہٹانے والے مسندوں پر آبیٹھے مگر پھر ہوا وہی جو تاریخ میں ازل سے ہوتا آیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہئ بدر میں شاہت الوجوہ (یہ چہرے بگڑ جائیں) کہہ کر جو مٹھی بھر ریت پھینکی تھی اور معجزاتی طور پر صف بند کفار میں سے کوئی نہ تھا جس کی آنکھیں اور منہ خاک آلود نہ ہوئی ہوں۔ تاریخ کا سفر طے کرتی یہ مٹھی بھر ریت صف آرا کفر کی آنکھوں میں آج بھی پڑی ہے۔ برطانیہ کے فوجی تربیت کے مایہ ناز ادارے کا تو نام ہی سینڈ ہرسٹ (ریت کا ٹیلا!) ہے۔ امریکا کا بگڑا، بائیڈن کا لٹکا چہرہ (باگرام پر وضاحتی بیان دیتے) کس نے نہیں دیکھا! شاہت الوجوہ! بات یہاں ختم نہیں ہوئی، باغوں چشموں خزانوں، قیام گاہوں سے نکل کر آئے تھے۔ لوٹے ہیں تو اس حال میں کہ خزانے یہ جنگ نگل چکی ہے۔ (عین اسی طرح جس طرح رچرڈ شیر دل کے دور کی صلیبی جنگوں نے برطانیہ کی کمر توڑی تھی۔ اب بش کی صلیبی جنگ نے امریکا کی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے۔) چشمے، دریا، سمندر سب سیلاب، ہری کین (سمندروں پر بنتے خوفناک طوفان) سائیکلون بن کر آبادیوں پر چڑھ دوڑے ہیں۔ قیام گاہیں کہیں سیلابی ریلوں اور کہیں جنگلات، آبادیاں، باغات چاٹتی آگ کی زد میں ہیں۔ شمالی کیلی فورنیا (امریکا) میں آگ 6600 ایکڑ نگل چکی ہے۔ ہزاروں آگ بجھانے والے جتے ہوئے ہیں۔ آبادی کا انخلا ہر جگہ جاری ہے۔ جنوبی اوریگن میں بھی شدید گرمی اور خشکی سے 70 بڑی آگیں 1659 مربع میل پر پھیلی حواس گم کیے دے رہی ہیں۔ کینیڈا بھی آگ کے تھپیڑے سہہ رہا ہے۔ مغربی جرمنی، بلجیم، نیندر لینڈ ناقابل یقین طوفانی بارش کے نتیجے میں سیلابی ریلوں کی لپیٹ میں ہیں۔ قبل ازیں برطانیہ بھی اس کی گرفت میں رہا۔ خوفناک مناظر۔ 60 سالوں میں بدترین قدرتی آفت ہے جس میں گھر زمین بوس ہوئے۔ گاڑیاں کھلونوں کی طرح تیرتی، ٹکراتی، الٹتی رہیں۔ کاروبار تباہ ہوگئے۔ گھر کچرا بن گئے۔ بقول ایک مکین کے: ’یہ تو جنگ والا حال ہوا ہے‘۔ ایک شخص مائیکل لینگ نے آنسو پیتے ہوئے کہا: ’سب کچھ مکمل تباہ ہوگیا۔ علاقہ پہچانا نہیں جاتا۔‘ ڈیم ٹوٹنے پر فوری انخلا کرنا پڑا۔ کہتے ہیں کہ بحالی کے لیے کئی ارب یورو درکار ہوں گے۔ ہونے والی تباہی کے درست اندازے میں بھی ابھی کئی ہفتے لگیں گے! 
پس منظر میں غزہ، افغانستان، شام، عراق میں پھیلائی جانے والی تباہی، گھر، آبادیوں کی بربادی، انخلا پر مجبور کیے جانے والے 20 سال مسلم ملکوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے! تم نے طاقت آزمائی تھی اب موسمیاتی بموں کے وارسہو جس میں سائنس ٹیکنالوجی، مفلسی کے گیلے آٹے کی طرح بھیگی پڑی ہے۔ نہ بجلی، نہ مواصلاتی رابطے، نہ نیٹ کی تیزیاں۔ آگ کی لپیٹں، پانی کے تھپیڑوں نے سٹی گم کردی۔ ساری تصاویر، ویڈیوز ان کی سرزمین پر جنگ زدہ علاقوں کا نقشہ پیش کررہی ہیں۔ 24 گھنٹوں میں 2 ماہ کے برابر بارش نے یہ حشر بپا کیا۔ آرمرڈ گاڑیاں، ہیلی کاپٹر، امدادی کشتیاں سب تباہ شدہ بلڈنگوں کی باقیات سے بچے پھنسے لوگوں کو بچانے میں جتی ہوئی ہیں۔ فوج گھر آگئی عالمی جنگوں سے اپنا سا منہ لے کر، اب اپنا گھر صاف کرنے میں لگی ہے۔ افغانستان میں پراسرار بندوں کی کارفرمائیاں جاری ہیں، جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی! 
امریکا نمایندہ زلمے خلیل زاد تلاش امن میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ کہتا ہے: پاکستان سمجھوتے کے لیے خصوصی کردار ادا کرے، مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں! کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ! آنجناب فرماتے ہیں: طالبان پر واضح کردیا ہے کہ طاقت کا استعمال تسلیم نہیں کریں گے! کیا امریکا نے افغانستان پر سیاسی سمجھوتے سے قبضہ کیا تھا؟ 20 سال دنیا کی جدید ترین عسکریت آزما ڈالی، اب پتا چلا عسکری حل نہیں ہے؟ طالبان کا کہنا ہے کہ 2 ماہ میں 193 ڈسٹرکٹ لے چکے ہیں، جنگ سے نہیں۔ خود سرکاری فورسز ہم سے آن ملتی ہیں۔ لوگ تنگ آ چکے ہیں۔ امن چاہتے ہیں۔ ہم پورا ملک لے سکتے ہیں مگر خود احتیاط کررہے ہیں۔ ان کی خود اعتمادی، سفارتی مہارت، تدبر اور پختگی دیدنی ہے۔ خلیل زاد سمجھوتوں کے لیے ازبکستان، تاجکستان پاکستان سے مدد مانگ رہے ہیں۔ حقائق بدل چکے ہیں۔ افغان عوام طالبان کے ساتھ دے رہے ہیں۔ خوش اور مطمئن۔ ان کی حکمرانی جن علاقوں میں ہے وہاں امن، انصاف، تعلیم، تجارت اور ہمدرد انتظامیہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے بیس سال کی تپش سہنے کے بعد۔
 پاکستان کا امن افغانستان کے امن اور بہتر تعلقات سے وابستہ ہے۔ طالبان کے خلاف ڈوبتی افغان حکومت کا ساتھ دینا پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ افغانستان کے ہمسایوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ تمام ایٹمی طاقتیں سر پر پاؤں رکھ کر دوڑ لی ہیں۔ ہم بیس سالوں میں جو کرچکے سو کرچکے۔ اب غلطی کی گنجائش نہیں۔ طالبان کو دباؤ میں لاکر سفارتی چالبازیوں سے زیر کرنا اب ممکن نہیں۔ کچھ عالمی طاقتیں اس کوشش میں ہیں کہ بساط الٹ کر افغانستان میں نوے کی دہائی والی خانہ جنگی میں دھکیلا جائے۔ بھگوڑی افغان فوج کو بھارت مدد دے کر مضبوط کرنے کے چکر میں ہے۔ ہم یہ بھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ طالبان نے اپنے دور میں پاکستان کے خلاف کام کرنے والے بلوچوں اور جرم کرکے افغانستان جا چھپنے والوں پر سخت ہاتھ ڈالا تھا۔ را اور بھارت طالبان دشمنی میں بہت کٹر ہیں۔ را اور این ڈی ایس (افغان ایجنسی) کا گٹھ جوڑ ہم سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اشرف غنی ڈھٹائی سے پاکستان کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ ایسے میں ہم طالبان کے خلاف (امریکا کی خاطر) کٹھ پتلی حکومت یا فوج کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے۔ اللہ سے بھی ڈرنے کا مقام ہے اور پاکستان کے مستقبل کے تحفظ کا بھی تقاضا ہے۔ محتاط رہنے کی ضرورت ہے!