کس آسیب کا سایہ ہے!

کس آسیب کا سایہ ہے!

چوہدری محمد علی 1955 سے 1956 کے درمیان پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ یہ جالندھر کے آرائیں خاندان میں پیدا ہوئے، پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور انڈین سول سروس میں چلے گئے۔ تقسیم سے قبل ان کا شمار ہندوستان کے ذہین اور قابل ترین سول سرونٹس میں ہوتا تھا۔ پاکستان بنا تو یہ پہلے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے، کچھ عرصہ بعد وزیر خزانہ بنا دیئے گئے اور 1955 میں گورنر جنرل سکندر مرزا نے محمد علی بوگرہ کو ہٹا کر انہیں وزیر اعظم بنا دیا۔ انہوں نے پاکستان کا پہلا آئین پاس کرایا اور ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی آئین کی زد میں آ کر 1956میں انہیں استعفیٰ دینا پڑا اور حسین شہید سہروردی ان کی جگہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے ’’ایمرجنس آف پاکستان‘‘ کے نام سے یادداشتوں پر مشتمل کتاب لکھی، یہ کتاب 1967میں شائع ہوئی اور اس کا اردو ترجمہ ’’ظہور پاکستان‘‘ کے نام سے چھپا۔ اس کتاب میں انہوں نے تقسیم کے وقت مختلف ریاستوں کے الحاق کے حوالے سے تبصرہ کیا ہے، ریاست جونا گڑھ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جونا گڑھ میں ہندوؤں کی اکثریت کے باوجود ریاست کے مسلمان نواب نے اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ کر دیا۔ انڈیا نے اس الحاق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انڈیا کی ریاستی مشینری نے ریاست پر قبضہ کر کے اسے انڈین یونین کا حصہ بنا دیا۔ تنازع کے حل کے لیے دہلی میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں ہندوستان کی طرف سے جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل جبکہ پاکستان کی طرف سے نوابزادہ لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی شامل ہوئے۔ گفتگو شروع ہوئی تو لیاقت علی خان نے کشمیر اور جونا گڑھ میں انڈیا کی متضاد پالیسی پر تفصیلی پریفنگ دی، انہوں نے دلیل دی کہ ریاست جونا گڑھ کے مسلم نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ہے مگر انڈیا اسے تسلیم نہیں کر رہا کیونکہ وہاں اکثریت ہندوؤں کی ہے، یہی صورتحال کشمیر میں درپیش ہے، کشمیر کے ہندو راجہ نے انڈیا کے ساتھ الحاق کر دیا ہے مگر وہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے تو اصولاً کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے۔ اگر ریاست جونا گڑھ کے مسلم حکمران کے دستخط کوئی معنی نہیں رکھتے تو کشمیر کے ہندو راجہ کے دستخط بھی بے معنی تسلیم کیے جائیں۔ اگر جونا گڑھ میں ریاست کے عوام کی خواہش کا احترام کیا گیا ہے تو کشمیر میں بھی یہی اصول لاگو ہونا چاہئے۔ انڈیا بیک وقت کشمیر اور جونا گڑھ کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے۔ لیاقت علی خان اپنی بات کہہ کر خاموش ہوئے تو سردار پٹیل جو بڑی دیر سے بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے پھٹ پڑے، مسٹر پرائم منسٹر! آپ جونا گڑھ کی بات نہ کریں وہاں تو پہلے ہی اکثریت ہندوؤں کی ہے، آپ حیدر آباد اور کشمیر کی بات کریں۔ دراصل سردار پٹیل حیدر آباد دکن یا کشمیر میں سے کوئی ایک ریاست پاکستان کو دینے کے حق میں تھے، ان کا نظریہ تھا کہ مسلم اکثریت والی ریاستوں کو زبردستی انڈیا کے ساتھ ملحق کرنے سے انڈیا مزید کمزور ہو گا۔ اس لیے دبے لفظوں میں سردار پٹیل کی تجویز یہ تھی کہ پاکستان ریاست حیدر آباد دکن جس کا پاکستان کے ساتھ زمینی اور جغرافیائی تعلق نہیں بنتا، اس سے دستبردار ہو جائے اور انڈیا کشمیر پر پاکستان کا حق تسلیم کر لے۔ اس طرح یہ مسئلہ مختصر وقت میں پُر امن طور پر حل ہو سکتا تھا۔ تقسیم کا یہ فارمولا حقیقت پسندی کے قریب تر تھا، ریاست حیدر آباد دکن کسی طور پاکستان کے حصے میں نہیں آ سکتی تھی، اس کا پاکستان کے ساتھ کسی طرح کا زمینی اتصال نہیں تھا اور اگر بالفرض یہ ریاست پاکستان کو مل بھی جاتی تو بنگلہ دیش سے بھی قبل یہ الگ مملکت کا سٹیٹس اختیار کر لیتی۔ یہ ریاست کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کا ایک اہم موقع تھا مگر پاکستانی سیاست دانوں کی نااہلی، غیر سنجیدگی اور غیر حقیقت پسندی نے یہ موقع کھو دیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب ’’گم گزشتہ قوم‘‘ میں لکھا ہے، شوکت حیات خان با اثر سیاست دان، فوجی افسر اور تحریک پاکستان کے اہم کارکن تھے، انہوں نے تقسیم کے وقت کی یادداشتوں کو اس کتاب کا حصہ بنایا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں کہ جب انڈیا نے کشمیر پر حملہ کیا تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن مسئلے کے حل کے لیے لاہور آئے۔ ڈنر کے دوران وزیر اعظم لیاقت علی خان اور چاروں صوبوں کے وزراء موجود تھے، کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے سردار پٹیل کا پیغام سنایا کہ مسلم لیگ اور کانگریس کو اس اصول کی پابندی کرنی چاہئے جو ریاستوں کے حل کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔ اصول یہ تھا کہ کوئی بھی ریاست اپنے باشندوں کی اکثریت اور جغرافیائی سرحدوں کی بنا پر پاکستان یا انڈیا کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرے گی۔ پٹیل کی تجویز یہ تھی کہ پاکستان کشمیر لے لے اور ریاست حید رآباد دکن کا مطالبہ چھوڑ دے۔ کیونکہ حیدر آباد دکن کا پاکستان کے ساتھ زمینی یا سمندری کوئی اتصال نہیں تھا۔ ماؤنٹ بیٹن یہ پیغام دینے کے بعد گورنمنٹ ہاؤس میں آرام کرنے چلے گئے۔ سردار شوکت حیات کشمیر آپریشن کے نگران تھے، انہوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستانی فوج کشمیر میں داخل ہو چکی ہے اور ہم مقامی قبائلیوں کی مدد سے انڈین فوج کو باہر نکالنے یا کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ ہماری عسکری صورتحال بھی اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ ہم انڈین فوج کو زبردستی کشمیر سے نکال دیں لہٰذا ہمیں پٹیل کی پیش کش کو قبول کر لینا چاہئے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کو یہ تجویز پسند نہیں آئی اور انہوں نے سردار شوکت علی خان کو گھورتے ہوئے کہا ’’کیا میں پاگل ہو گیا ہوں کہ کشمیر کے پہاڑوں اور ٹیلوں کے بدلے ریاست حیدر آباد دکن کو چھوڑ دوں جو پنجاب سے بھی بڑی ریاست ہے۔‘‘ وزیر اعظم کا جواب سن کر سردار صاحب اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئے، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ لیاقت علی خان ملکی جغرافیے سے اس قدر نابلد ہوں گے اور ان کی سوچ میں اس قدر سطحیت اور غیر سنجیدگی ہو گی۔ حیدر آباد دکن کی جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر اس کا حصول ناممکن تھا جبکہ اس ناممکن پیش کش کے عوض کشمیر بآسانی مل رہا تھا۔ سردار شوکت حیات خان نے مزید کشمیر آپریشن کا سربراہ رہنے سے معذرت کر لی اور استعفیٰ وزیر اعظم کو بھجوا دیا۔
یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کی قسمت شروع دن سے ہی خراب رہی ہے، اس ملک کو شروع دن سے ہی غیر سنجیدہ اور سطحی قیادت نصیب ہوئی ہے۔ اگر آج یہ ملک سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کا شکار ہے تو اس کا ماضی بھی کچھ زیادہ خوش کن نہیں رہا۔ اگر آج یہ ملک سیاسی پارٹیوں کی خانہ جنگی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے تو اس کے ماضی میں بھی ایسے معرکے برپا ہوتے رہے ہیں۔ اگر آج اس ملک پر غیر سنجیدہ، سطحی اور ہوس اقتدار میں مبتلا قیادت مسلط ہے تو اس حوالے سے اس کا ماضی بھی داغدار ہے۔ نہ جانے اس ملک پر کس آسیب کا سایہ ہے کہ ہم سے بعد آزاد ہونے والے ملک ہم سے کہیں آگے نکل گئے اور ہم اب تک دائروں کے سفر میں سرگرداں ہیں، ہم گندے جوہڑ میں کھڑے ہو کر ایک دوسرے پر کیچڑ پھینک رہے ہیں اور ہماری پارلیمان پہلوانوںکے اکھاڑے بن چکی ہیں۔ ہماری عدالتیں مذاق بن چکی ہیں اور ملک حالت نزع میں ہے۔ یا خدا! اس ملک پر رحم فرما۔

مصنف کے بارے میں