روشنیوں کے محافظ

روشنیوں کے محافظ

سرحدوں کی محافظ پاک فوج کی قربانیوں کے بعد روشنیوں کے محافظ ، صنعت کے محافظ ، کھیت کھلیان کے محافظ ، محکمہ بجلی کے جانباز اور جانفروش لائن مین ہیں مگر یہ نام کے محافظ ہیں آج تک سرکاری طور پر انکی شہادت کو سرکاری شہید تسلیم نہیں کیا گیا یعنی زندگی میں عدم تحفظ کا خوف غالب رہا اور بعد از رحلت/شہادت کسمپرسی لواحقین کا مقدر بن جاتی ہے۔ریاست کے اربابِ اختیار حضرات کی یہ سخت ترین بے انصافی اور بے حسی ناقابلِ معافی اور ناقابلِ برداشت ہے اگر منصف مزاج عدلیہ منصفانہ طور پر غور فرمائے تو ان قیمتی اموات کے ذمے دار ہر دور کے نااہل حکمران ہیں کاش کہ معزز عدلیہ ایک مشفقانہ اور ہمدردانہ نظر ادھر بھی عنایت فرما دے۔
گذشتہ ایک ماہ میں واپڈا کے 10 جانفروش لائن مین شہید ہو چکے ہیں۔
پشاور میں تین ، اسلام آباد میں دو ، گوجرانوالہ میں دو ، لاہور میں دو ، اور فیصل آباد میں ایک لائن مین شہیدہوا۔
 محکمہ بجلی کا انتہائی قیمتی سرمایہ جسے محکمے کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے وہ لا ئن مین ہے ان کی شہادتوں سے وطنِ عزیز اپنے انمول نگینوں سے محروم ہو گیا 
 قوم کی دس بہو بیٹیوں کو بیوگی کا دکھ جھیلنا پڑ گیا 
انکی شہادتوں نے تقریباً پچاس کے قریب بچے بچیوں کو اس بے رحم اور ظالم معاشرے میں یتیمی دے دی۔  
محکمے اور ملکِ پاکستان کو نئے محنت کش تو مل جائیں گے اگر بے حس اور بے رحم حکمرانوں نے نئی بھرتی کر لی تو مگر بچوں کو باپ نہیں مل سکے گا اور سہاگنوں کو سہاگ۔
ان المناک حادثوں کو حکمران طبقہ نے رتی برابر اہمیت نہیں دی وہ صدرِ پاکستان ہو ، وزیرِ اعظم ہو ، پاور منسٹر یا پاور سیکرٹری ہو یا ایم ڈی پیپکو ہو یا ہیومین رائٹس کمیشن ہو کسی ایک کو تعزیتی بیان تک دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ صرف اور صرف ایک اپنے مقصد سے مخلص بزرگ مزدور راہنما خورشید احمد ہیں جو تعزیتی بیان دینے کے بجائے گھروں میں گئے اور کفن دفن سے لیکر تمام تر واجبات کی ادائیگی کی ذمہ داری نبھانے کا وعدہ کر کے آئے ہیں انکے علاوہ احساس سے عاری اور انسانی ہمدردی سے مبرا ذمہ دارانِ  مملکت میں سے کوئی ہمدرد نظر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی از خود نوٹس نہیں لیا کہ ان جان لیوا حادثات ہیں یا نہیں جبکہ شہیدوں کے جذبے ملک و قوم کے لیئے کچھ ایسے ہیں
   دھوپ ہو بارش نہیں کرتا سکون
 روشن درو دیوار ہے اس کا جنون
 سرکار کے حلقے نہیں کرتے سلام 
کتنا سستا ہے اک مزدور کا خون
حادثات کی روک تھام کے لیئے چند بنیادی تجاویز تحریر کر رہا  ہوں
اسوقت پورے پاکستان میں تقریباً ستر ہزار پوسٹیں خالی ہیں فوری طور پر بھرتی شروع کی جائے اور ڈیلی ویجز ملازمین کو ریگولر کیا جائے۔
آپریشنل سٹاف خصوصا" بل ڈسٹری بیوٹرز ، میٹر ریڈرز، لائن سٹاف اور منسٹیریل/ کمپیوٹر سٹاف کی بھرتی فوری جنگی بنیادوں پر کی جائے
محکمہ بجلی میں سیاسی مداخلت بند کی جائے 
ناقص و فرسودہ  ترسیلی نظام بہتر بنایا جائے
ترسیلی نظام کے نیچے کھڑے جانباز محنت کش کو ذہنی آسودگی ، دلی سکون اور مالی خوشحالی دی جائے۔ دورانِ ڈیوٹی ہونیوالی شہادت کو سرکاری درجہ دیا جائے حادثے کے بعد قیمتی جسمانی اعضا سے محروم ہو جانے پر تا حیات تنخواہ دی جائے اور ایک بچہ فوری مستقل بنیادوں پر بھرتی کیا جائے۔لیکن یہ سب کچھ حکومت کے احساس پر مبنی ہے جبکہ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جس میں سے روح نکل جائے وہ مردہ ہے اور جس میں سے احساس نکل جائے وہ انسان نہیں مجھے ملکی سیاسی ابتری اور کھینچاتانی سے تو ایسے ہی لگتا ہے کہ حکمران طبقہ یا مردہ ہے یا انسان نہیں۔ یہی بے حسی مزدوروں کے جان لیوا حادثات کی بنیادی وجہ ہے۔اگر میری یہ تحریر کسی حکومتی ذمہ دار بااختیار کی نظروں سے گذرے تو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہو چکے حادثات کی وجوہات و تفصیلات ہی طلب کر لیں تاکہ کم از کم بیوگان اور یتیم بچوں کو کسی حد تک احساس تحفظ مل سکے۔

مصنف کے بارے میں