میچ فکسنگ کی طرح بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے، اس پر بھی سوموٹو ہونا چاہئے: مریم نواز شریف

میچ فکسنگ کی طرح بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے، اس پر بھی سوموٹو ہونا چاہئے: مریم نواز شریف

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ مجھے آتے ہوئے پیغامات ملے کہ پریس کانفرنس نہ کریں آپ کی اپیل زیر التواءہے، موجودہ ملکی حالات کے پیچھے چار سالہ کارستانی اور اس کے پیچھے عدلیہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جیسے میچ فکسنگ ہے ویسے بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے اور اس پر بھی ایک سوموٹو ہو نا چاہئے۔ 
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں اتحادی جماعتوں کے سربراہان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز شریف کے جیتنے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں درخواست لے کر گئی، دیواریں پھلانگیں اور قوم نے دیکھا کہ چھٹی کے روز رات کے وقت رجسٹری کھلی، رجسٹرار گھر سے بھاگا بھاگا آیا اور پوچھا پٹیشن کدھر ہے؟ پی ٹی آئی نے کہا کہ ابھی تیار نہیں ہوئی تو رجسٹرار نے کہا کہ ہم یہاں بیٹھے ہیں، آپ پٹیشن تیار کریں لیکن یہاں عام لوگوں کی پٹیشن لگتی ہی نہیں اور طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ جب کوئی پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ بینچ کون سا بن گا اور جب بینچ بنتا ہے تو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا ہو گا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے انتخابات میں 6 ووٹ مسترد ہوتے ہیں، سپیکر رولنگ دیتا ہے تو سپریم کورٹ کہتی ہے کہ سپیکر کی رولنگ کو مسترد نہیں کیا جا سکتا، اب پنجاب اسمبلی میں سپیکر نے رولنگ دی کہ چوہدری شجاعت حسین جو پارٹی سربراہ ہیں ان کی مرضی کے خلاف دئیے گئے ووٹ نہیں گنے جائیں گے تو سپریم کورٹ نے انہیں کٹہرے میں لا کھڑا کیا، اس سے پہلے قاسم سوری کو کیوں نہیں بلایا گیا ؟ تب تو سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ آئین ٹوٹا ہے، وہیں سے آغاز کر لیں تو قاسم سوری کا اوپن اور شٹ کیس ہے۔ 
مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے پر پنجاب میں 25 ارکان ڈی سیٹ ہوئے اور کہا گیا کہ ووٹ بھی نہیں گنے جائیں گے، نتیجتاً مسلم لیگ (ن) کے 25 ارکان عمران خان کی جھولی میں پھینک دئیے گئے، جب سے حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بنا، اسے کام نہیں کرنے دیا گیا، وہ اپنی کابینہ نہیں بنا سکا، بار بار پارلیمینٹ سے کورٹ اور کورٹ سے پارلیمینٹ، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ معیشت کی حالت اچھی نہیں ہے، میں اس پر بھی بات کرنا چاہتی ہوں، چار سال جب اکانومی کے نٹ بولٹ کھولے جا رہے تھے اور عمران خان تباہی کر رہا تھا، آپ نے ایک بھی بیان سنا کہ معیشت کی حالت اچھی نہیں ہے، اگر یہ موازنہ کرنا ہے تو پھر 2017ءمیں جب نواز شریف کو نکالا اور جب عمران خان چھوڑ کر گیا، تب تک کا موازنہ کریں، عمران خان چار سال سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا، پاکستان کے ہر شعبے میں اسے کھلی آزادی ملی جو آج بھی ہے۔ 
مریم نواز شریف نے کہا کہ برطانوی حکومت ملک ریاض کا 50 بلین سٹیٹ بینک آف پاکستان کو دیتی ہے اور عمران خان اپنی کابینہ میں ایک بند لفافہ لہراتے ہیں، اور وہ پیسہ ملک ریاض کو معاف کر دیتے ہیں، اس پر کسی نے سوموٹو نوٹس لیا؟ معیشت کی خرابی کے سارے تانے بانے 2017ءمیں چلتی ہوئی حکومت کو ختم کرنے سے ملتے ہیں، جب سے آپ نے نواز شریف کو اقامہ جیسے مذاق پر نکالا، تب سے یہ ملک ٹربیولنس کا شکار ہے اور 2017ءکے بعد سے لوگوں نے سیٹ بیلٹس کھولی نہیں ہیں، ملک ایسا ہلا کہ اب سنبھلنے میں ہی نہیں آ رہا، واٹس ایپ کال پر جے آئی ٹی بنائی گئی اور اس کیس پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مانیٹرنگ جج لگایا گیا، وہ مانیٹرنگ جج آج بھی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ وہ ہمارے اوپر مانیٹرنگ کیلئے تاحیات لگا دیا گیا ہے، ہمارے خلاف ہر مقدمے میں وہ شامل ہوتا ہے، سپریم کورٹ میں شفاف اور انصاف کرنے والے اور بھی ججز ہیں لیکن جو ہمیشہ سے حکومت مخالف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف ہیں انہیں بینچ میں بٹھا دیا جاتا ہے، جیسے میچ فکسنگ ہے ویسے بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے اور اس پر بھی ایک سوموٹو ہو نا چاہئے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ججز نے ہمیں گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے القابات سے نوازا اور ایسا کبھی کسی نے تاریخ میں نہیں سنا اور نواز شریف کے خلاف ثبوت ڈھونڈنے پر لگ گئے لیکن ثبوت ہوتا تو ملتا، جہاں جرم ہوتا ہے وہاں ثبوت ہمیشہ ہوتا ہے لیکن نواز شریف کے خلاف انہیں کچھ نہیں ملا اور پھر آخر میں گاڈ فادر اور سسلین مافیا کہہ کر اقامہ پر فارغ کر دیا گیا، جس عدالت میں پانامہ کا کیس چل ہا تھا اسی عدالت میں ایک بینچ پر بیٹھے جج جسٹس کھوسہ نے عمران خان سے کہا کہ سڑکوں پر کیوں مارے مارے پھر رہے ہو میرے پاس پٹیشن لے کر آﺅ میں سنتا ہوں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ نواز شریف کو نکالا گیا، اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا کہ اسی عدالت کے کورٹ روم نمبر ون میں ڈکلیئرڈ اشتہاری عمران خان فاضل ججز کے سامنے بیٹھ کر پانامہ کی سماعت دیکھتا تھا، تالیاں بجاتا تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ آخر میں فیصلہ کیا آئے گا، کبھی کسی جج نے کہا کہ آپ اشتہاری ہیں یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہیں، توہین عدالت میں ہمارے رہنماﺅں کو چن چن کر نااہل کیا گیا اور آج تک نااہل ہیں، اگر پاکستان میں یہ ماحول لانا ہے کہ جو سب سے بڑھ کر گالی دے گا فیصلہ اس کے حق میں آئے گا، اگر تنقید سے اتنا ڈرتے ہیں تو سوچیں کہ یہ ملک کہاں جائے گا۔ 
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ عمران خان نے کونسا جرم ہے جس کا ارتکاب نہیں کیا، جلاﺅ گھیراﺅ، ہنڈی کے ذریعے پیسے لانا، سول نافرمانی، بل جلانا، سپریم کورٹ کے سامنے شلواریں لٹکانا، کون سا جرم نہیں کیا عمران خان نے مگر کیا کسی عدالت میں اس کے خلاف سوموٹو لینے کی ہمت ہے یا وہ سارے مسلم لیگ (ن) یا اتحادی حکومت کیلئے ہیں؟ جب لانگ مارچ کی کال دی تو ریڈ زون میں انہیں آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن عمران خان نے سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اڑائیں اور انہیں پاﺅں تلے روندتے ہوئے ڈی چوک میں آ گئے لیکن سپریم کورٹ نے اگلے دن فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان تک احکامات ہی نہ پہنچے ہوں، اسے جب اجازت مل تو اسلام آباد میں آگ لگا دی مگر اگلے روز جج صاحب فرماتے ہیں کہ آنسو گیس کے اثرات سے بچنے کیلئے شائد آگ لگائی گئی ہو، یہاں جتنی بھی جماعتیں بیٹھی ہوئی ہیں، ان میں سے کسی نے یہ کام کیا ہوتا تو کیا آفت آ جاتی، پھر ایسے شخص کو اسی عدالت نے صداقت اور امانت کا سرٹیفکیٹ دیا، اس نے تاریخ کے سب سے بڑے جھوٹ بولے، بنی گالہ کو ریگولرائز کرایا، جعلی دستاویزات بنائے اور جمع کرائے، لیکن اسے صداقت اور امانت کا سرٹیفکیٹ دینے والا جج آج کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں اور چھپ چھپ کر عمران خان سے ملتا ہے، بشریٰ بی بی نے پانچ، پانچ قیراط کی ہیروں کی انگوٹھیوں کے عوض فائلوں پر سائن کئے لیکن جب شہباز شریف وزیراعظم بنے تو انہیں مرضی کی تعیناتیاں کرنے پر عدالت میں بلایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ وہ اپنے کیس میں رعایت کیلئے ایسا کر رہے ہیں، وہ سوموٹو تب کہاں سویا ہوا تھا جب عمران خان نے ایف آئی اے سربراہ کو بلا کر کہا کہ اپوزیشن رہنماﺅں کو اندر کر دو، کوئی مقدمہ نہیں پھر بھی کر دو، اس وقت سوموٹو کہاں تھا جب طیبہ گل انصاف لینے عمران خان کے پاس گئی تو اسے وزیراعظم ہاﺅس میں قید کر دیا گیا اور ویڈیو بنائی جس کے ذریعے چیئرمین نیب کو بلیک میل کر کے اپنے مفاد کیلئے کام کرواتا رہا، اس وقت سوموٹو کہاں تھا، یہ انصاف کا کون سا معیار ہے، انصاف کا یہ دوہرا معیار ختم ہونا چاہئے کیونکہ تب ہی ملک ترقی کرے گا۔ 
شیریں مزاری کیلئے راتوں رات عدالت کھلتی ہے، لیکن سرینا عیسیٰ رلتی رہتی ہے، مریم نواز کا مقدمہ آتا ہے تو پانچ پانچ، چھ چھ مہینے کوئی ضمانت نہیں دیتا، اور جب ضمانت کا وقت آتا تھا تو پتہ چلتا تھا کہ بینچ ہی تحلیل ہو گیا، اور جج چھٹی پر چلا گیا، جج چھٹی پر جاتا نہیں تھا بلکہ بھیجا جاتا تھا، آصف علی زرداری کی بہن کو ہسپتال سے اٹھا کر لے گئے، طیبہ گل اور سرینا عیسیٰ کو کسی نے انصاف نہیں دیا، جب کرسی چلی گئی تو عمران خان بولے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے میں غلط کیا، کیا اتنا کہہ دینا کافی ہے؟ جب ایک خاندان ذلیل و خوار ہو گیا۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ہر انصاف دینے والا جج، نیوٹرل اسٹیبلشمنٹ اور نیوٹرل الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) عمران خان کو کھٹکے گی، مریم نواز بغیر کسی جرم کے ڈیتھ سیل میں رہ کر آ جاتی ہے لیکن علیمہ خان کو کہتے ہیں کہ جرمانہ دیں اور گھر چلی جائیں، جرمانہ تو اسے کیا جاتا ہے جس نے کوئی جرم کیا ہو، مجھ سے تو کوئی جرمانہ نہیں لیا گیا، ہماری حکومت ہے لیکن میں آج بھی عدالتوں میں پیش ہو رہی ہوں، جائز مقصد کیلئے پاسپورٹ مانگا تو ایک روز میں بینچ بنتا ہے ٹوٹتا ہے، کیس سننے سے انکار کر دیتے ہیں، عمران خان کیلئے سیاہ کو سفید کرنے والا شہزاد اکبر اور فرح گوگی حکومت کے پہرے میں فرار ہو گئے، لیکن جب ہمارا نام ای سی ایل سے نکالا جاتا ہے تو سپریم کورٹ حاضر کر لیتی ہے۔ 
مریم نواز نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عمران خان کی جانب سے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو سرکاری فنڈ سے پیسہ دیا دینے کے معاملے کا نوٹس لیا تو کہا گیا کہ عدالت مداخلت نہیں کر سکتی، چوہدری پرویز الٰہی کا کیس نیب نے بند کیا، کوئی سوموٹو نہیں لیا، بی آر ٹی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کی اور نیب نے اس کے خلاف تفتیش کا آغاز کیا تو اسے روک دیا گیا اور کہا گیا کہ آپ انکوائری نہیں کر سکتے۔ سب کیسوں کا باپ فارن فنڈنگ کیس ہے جس میں ملازموں کے نام پر اسرائیل اور بھارت کے لوگوں سے ممنوعہ فنڈنگ لی گئی مگر سات سال سے قوم انتظار میں ہے کہ اس کا فیصلہ کب آئے گا، یہ جو ملک کی آج حالت ہے، معیشت خراب اور لوڈشیڈنگ واپس آ گئی ہے، ملک سنبھلنے میں نہیں آ رہا تو اس کے پیچھے چار سالوں کی کارستانیاں ہیں اور اس کے پیچھے عدلیہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ 

مصنف کے بارے میں