پیپلز پارٹی بند گلی میں

Naveed Chaudhry, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

اس بات کی تسلی ہو جانے کے بعد کہ پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اسے نشانے پر رکھ لیا گیا۔ ان دنوں وفاقی وزرا پیپلز پارٹی کے خوب لتے لے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری پچھلے ہفتے خصوصی مشن پر کراچی گئے تو وزیر اعلی مراد علیٰ شاہ کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں اختیار صرف بلاول ہاؤس کے پاس ہے، انہوں نے الزام لگایا کہ وفاق نے سندھ کو 1800ارب روپے دئیے مگر کچھ پتہ نہیں وہ کہاں گئے، یہ پیسہ صرف دبئی میں لگاتے ہیں، وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ سندھ میں گورنر راج لگایا جائے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ صوبے میں آرٹیکل 140 کا نفاذ کرے،پولیس، صحت، تعلیم سمیت دیگر شعبوں کا کباڑا ہو چکا، وفاقی وزیر کے اس اچانک دھاوے پر سندھ کے وزیر اطلاعات نے یہ کہہ کر جواب دیا کہ وفاق صوبائی حکومت کی کارکردگی سے خوفزدہ ہوکر سازشیں کررہا ہے، پیپلز پارٹی کا تمام تر بیانیہ اگلے روز اس وقت دھرا رہ گیا جب سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ سندھ کے سوا پورا ملک ترقی کررہا ہے،ایک طویل عرصے سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود شہریوں کو کیا ملا؟، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ میں کوئی حکومت نہیں۔ یہاں لندن، دبئی اور کینیڈا سے حکم چلتا ہے، صوبے کا اصل حکمران یونس میمن ہے، سندھ حکومت کا ایک ہی مشن ہے کہ صوبے کو بد سے بدتر بناؤ، سپریم کورٹ نے کڈنی ہل پارک، کشمیر روڈ پر کے ڈی اے آفس و دیگر تعمیرات، الہ دین واٹر پارک سے متصل شاپنگ سنٹر اور پویلین کلب کے خاتمے سمیت تمام تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا،ایک روز کے وقفے سے پھر سماعت ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کراچی کے خلاف بہت بڑی سازش ہوئی، شہر کو تباہ کردیا گیا،کے ایم سی جیسا ادارہ کھوکھلا ہوگیا، ساری مشینری گل سڑ رہی ہے، ادارے میں کرپشن کا راج ہے، مختیار کار وزیر بنے ہوئے ہیں، سرکاری زمینوں پر بادشاہوں کی طرح قبضے ہورہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے کئی منزلہ نسلہ ٹاور کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر گرانے کا حکم دیا، صوبائی حکومت ابھی سپریم کورٹ کی سرزنش کے جھٹکے سے باہر نہیں نکلی تھی کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری پھر سے کراچی پہنچ گئے،انہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاق سے جو پیسہ سندھ کو ملتا ہے وہ منی لانڈرنگ، جعلی اکاؤنٹس اور لانچوں کے ذریعے ملک سے باہر چلا جاتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ سندھ کو جو پیسہ مل رہا ہے اس کی مانیٹرنگ کی جائے، کوئی عزت دار بندہ وزیر اعلیٰ ہوتا تو چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد استعفا دے دیتا،فواد چودھری نے یہ کہہ کر آئندہ کے عزائم بھی ظاہر کردئیے کہ یہ پیپلز پارٹی کا آخری دور ہے، اگلے عام انتخابات کے بعد سندھ میں پی ٹی آئی حکومت بنائے گی،ظاہر ہے پیپلز پارٹی نے اس کا جواب سیاسی طور پر ہی دینا ہے مگر یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سے اسکی حکومت کی کارکردگی پر جو تبصرہ سامنے آیا ہے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ معاملات صرف سیاسی نہیں بلکہ آئینی، قانونی اور انتظامی طور پر بھی درست نہیں۔ سپریم کورٹ سے ایسے ریمارکس آنے کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے سنگین نوعیت کے قانونی اور اخلاقی مسائل پیدا ہوچکے۔ فاضل چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ صوبائی حکومت باہر سے چلائی جارہی ہے موجودہ حکومت کے پورے ڈھانچے کو گرا دینے کے مترادف ہے۔ دیگر صوبے ترقی کر رہے ہیں یا نہیں؟ مگر عدالت عظمی کا یہ کہنا کہ سندھ کے سوا ہر جگہ ترقی ہورہی ہے حکومت کی نااہلی اور بیڈ گورننس کو آشکار کر رہا ہے۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ صوبے کا اصل حکمران یونس میمن ہے جو ملک کے باہر بیٹھ کر ڈوریاں ہلا رہا ہے،انتہائی سنسنی خیز ہی نہیں بے حد خطر ناک بھی ہے۔ یونس میمن نامی کردار کو پیپلز پارٹی والے تو یقیناً جانتے ہو نگے مگر حیرانی ہوئی جب کراچی کے سابق میئر وسیم اختر نے بتایا کہ انہوں نے صرف نام ہی سن رکھا ہے۔ بہر حال یہ اطلاعات جس کسی نے بھی سپریم کورٹ تک پہنچائیں اسکے ساتھ ناقابل تردید شواہد بھی دئیے ہونگے۔ ورنہ جج صاحبان بھری عدالت میں کیسے ذکر کرسکتے تھے؟ اس ساری صورتحال پر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بلاول بھٹو نے لب کشائی کی اور اپنی والدہ بینظیر بھٹو کے ایک بیان کا حوالہ دیا جس میں محترمہ نے کہا تھا“ کہ ہمیں پیپلز پارٹی والوں کو یا تو قتل کردیا جاتا ہے یا پھر ان کی کردار کشی کی جاتی 
ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اسی دوران قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو خط لکھیں گے اور بتائیں گے کہ صحافیوں پر حملوں سے کس طرح ان کے ادارے کی بدنامی ہو رہی ہے۔ انہوں کہا کہ نئے پاکستان میں صحافیوں پر ہونے والے حملے اتنے زیادہ ہیں کہ جنرل ضیا اور جنرل مشرف دور میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ ممکنہ خطرات کو بھانپتے ہوئے بلاول بھٹو ایک قدم اور آگے چلے گئے۔ 
 سندھ اسمبلی آڈیٹوریم میں اپنی والدہ کی سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کسی کے کہنے پر آئینی حقوق پر سودے بازی کیلئے تیار نہیں، صوبوں کے معاشی حقوق وفاق سے چھین لیں گے، جب تک حقوق نہیں ملتے ترقی نہ ہونے کا طعنہ برداشت نہیں کریں گے، لوگ مانیں یا نہ مانیں لیکن صوبہ سندھ میں کام ہوا ہے، صوبہ میں اتنا کام ہوا ہے جو کوئی بزدار اور عمران خان نہیں کرسکتے، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ذمہ داریاں بڑھیں مگر نیا این ایف سی نہیں دیا گیا، گجر نالہ پر لوگ خوشی سے نہیں رہ رہے ہیں، سپریم کورٹ انصاف کا ادارہ ہے، فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، سندھ میں کٹھ پتلی بھی آکر تنقید کرتے ہیں، کسی کو بانی متحدہ والی سیاست کی اجازت نہیں دیں گے۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے باہر کچھ لوگوں کو نعرے لگانے پڑے، بنی گالا کو کم قیمت پر ریگولرائز کردیا گیا، انہوں نے کہا کہ سندھ پر آئینی اور معاشی حملے ہورہے ہیں۔ یہ کونسا طریقہ ہے کہ یک جنبش قلم سے ہزاروں افراد کو بے گھر کردیا جائے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ نعرہ لگائیں کہ“بچا دیا بنی گالہ، گرا دیا گجر نالہ“یاد رہے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے نہ صرف بنی گالہ کو ریگولرائز کردیا تھا بلکہ اسلام آباد کی اس کثیرالمنزلہ عمارت کو بھی جائز قرار دیا تھا جس میں وزیر اعظم کا فلیٹ موجود ہے۔ اس عمارت کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک جامع فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ ایک طرف تو بلاول بھٹو کا یہ بیان ہے دوسری جانب کاروباری حلقوں نے بھی مختلف عمارتیں گرانے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں ایک وفد نے صدر عارف علوی سے ملاقات بھی کی۔ جماعت اسلامی کراچی کے رہنما حافظ نعیم نے مطالبہ کیا کہ نسلہ ٹاور گرانے کے حکم پر عمل درآمد سے پہلے لازمی ہے کہ متاثرین کے لیے بالکل ایسی ہی نئی عمارت تعمیر کی جائے۔ حیرت کی بات ہے اس تمام معاملے پر پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عدالت سے ایسے ریمارکس ن لیگ کی کسی حکومت کے خلاف آتے تو وہ بڑھ چڑھ کر حمایت کررہے ہوتے۔ یہی ریمارکس پی ٹی آئی کی حکومت کے متعلق ہوتے تو قوم کو بتا رہے ہوتے کہ اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے۔ سندھ حکومت کے معاملے پر وہ چپ ہیں۔ کچھ بولتے تو پارٹی کو آسرا ہوتا۔ ایک جذباتی جیالے نے چیف جسٹس صاحب پر نامناسب تنقید کر ڈالی۔ اب اسے توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا یہ خیال تھا کہ پی ڈی ایم کو“زخمی“ کرکے چھوڑنے کے عوض انہیں کئی طرح کی رعایتیں ملیں گی۔یہاں تک سوچا جارہا تھا بلکہ اس کا اظہار کیا جارہا تھا کہ مقتدر حلقے پی ٹی آئی حکومت کی ناقص کارکردگی سے تنگ آچکے ہیں۔ کسی ممکنہ تبدیلی کی صورت میں بلاول بھٹو اگلے وزیر اعظم ہونگے۔ ہوسکتا ہے کہ پی ڈی ایم کے قلعے میں شگاف ڈالنے کا ٹاسک سونپنے والوں نے انہیں ایسا کوئی خواب دکھایا ہو۔ زمینی حقائق مگر یکسر مختلف ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اگر کوئی حکومت اپنے برے طرز حکمرانی سے غیر مقبول ہو رہی ہو تو حکمران اشرافیہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ خود آصف علی زرداری کے دور صدارت میں پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی کیا تھی؟ بجلی، گیس غائب، ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر، کوئی میگا پراجیکٹ نہیں۔ پھر بھی مدت مکمل کی۔ موجودہ حکومتی بندوبست میں عمران، بزدار ماڈل مقتدر حلقوں کے لیے مثالی ہے۔ یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ اپنے ہاتھوں سے نصب شدہ اس سسٹم کو اکھاڑ کر پیپلز پارٹی کو لایا جائے گا۔صاف نظر آرہا ہے کہ پیپلز پارٹی پر سندھ کی زمین بھی تنگ کی جارہی ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو پھر سے اکٹھا کیا جارہا ہے۔ جے ڈی اے کو کوئی نیا نام دے کر اندرون سندھ مضبوط سیاسی دھڑا بنایا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے ایلیکٹ ایبلز کو وفاداریاں تبدیل کراکے اس دھڑے میں شامل کرایا جائے گا۔ سندھ میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے بھی بھرپور انتخابی سیاست ہوگی۔ پی ڈی ایم کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ وہ انتخابی الائنس کی شکل اختیار کرلے گا۔ ن لیگ اور جے یو آئی نے دیہی اور شہری سندھ میں مشترکہ امیدوار کھڑے کردئیے تو اس سے زیادہ نقصان بھی پیپلز پارٹی کو ہی ہوگا۔ پی ڈی ایم کے قیام سے قبل وفاقی وزیر شیخ رشید باربار کہا کرتے تھے کہ دسمبر 2020تک تمام اہم اپوزیشن لیڈر عدالتوں سے نااہل قرار پا جائیں گے۔ یہ منصوبہ شاید اب بھی ختم نہیں ہوا۔ اگر آصف زرداری اور بلاول کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوگیا تو پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی مقبولیت اور کشش پہلے ہی بہت متاثر ہو چکی ہے۔ غالبا حالات کی نزاکت کو بھانپ کر ہی آصف زرداری نے لاہور کا رخ کیا ہے۔ ایسی خبریں سننے میں آرہی ہے کہ جنوبی پنجاب کی چند سیاسی شخصیات پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتی ہیں۔ یہ ایسے سیاستدان ہیں کہ جن کے لیے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے دروازے بند ہیں۔ ان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہوگا صرف خبر ہی بن سکے گی۔ جہاں تک ق لیگ کے چودھری پرویز الہی کی ملاقات کا تعلق ہے تو اس سے بھی کچھ حاصل نہیں ہونے والا، چودھری برادران کی پارٹی اور سیاست سو فیصد اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر ہے ۔ سندھ میں حکومت کی تبدیلی اس لیے بھی ضروری ہے کہ آنے والے دنوں میں“ کاروبار مملکت“ کا مرکز سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی ہوگا۔ بلوچستان میں جام کمال خود رہیں یا ان جیسا کوئی اور آئے فرق نہیں پڑتا۔ سندھ میں البتہ کسی بزدار کی اشد ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کو اس خطرہ سے صرف پی ڈی ایم اور اسکی جارحانہ سیاست ہی بچا سکتی ہے۔ باربار دھوکے کھانے کے بعد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سمیت اپوزیشن اتحاد کے دیگر قائدین اب موقع دینے کو تیار نہیں۔ وہ برملا کہتے ہیں پیپلز پارٹی پہلے اسٹیبلشمنٹ سے اپنے کیے کا پھل پا لے اسکے بعد ہی کوئی بات ہوگی۔تازہ ترین پیش رفت سے یوں لگ رہا ہے پیپلز پارٹی با لا آخر بند گلی میں آ چکی ہے۔ پی ڈی ایم یقیناً اب اسکا سہارا نہیں بنے گا۔ کیونکہ زرداری کی ضرب کاری سے سنبھلے ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ بعض رہنما تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہم نے پیپلز پارٹی سے دوبارہ ہاتھ ملانے کی غلطی کی تو خود پی ڈی ایم پھر بند گلی میں پھنس کر رہ جائے گا۔