آزادی اور پابندی

آزادی اور پابندی

جان ایف کینیڈی نے 1962ءمیں 49ویں نوبل پرائز جیتنے والوں کو وائٹ ہاﺅس میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ”انسانوں کا علم رکھنے والا دنیا کا بہترین ٹیلنٹ اتنی بڑی تعداد میں آج سے قبل ایک ساتھ وائٹ ہاﺅس میں اکٹھا نہیں ہوا۔ ماسوائے تھامس جیفرسن کی جو اس وقت یہاں موجود تمام ٹیلنٹ کے اکیلے ہی ہم پلہ تھے“۔ تھامس جیفرسن امریکہ کے تیسرے صدر اور امریکہ کی اعلانِ آزادی کا مسودہ لکھنے والے بانی رہنما بھی تھے۔ وہ امریکہ میں جمہوریت کی نظریات کو فروغ دینے والے موثر ترین بانی قائدین میں سے ایک تھے۔ سیاسی مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ورجینیا یونیورسٹی بھی قائم کی۔ وہ بہترین موسیقار، آرکیٹکٹ، آرکیالوجسٹ، ماہر ِپود اجات اور موجد تھے اور قبل از تاریخ کی زمانے کے مطالعے کے بھی بے حد شوقین تھے۔ امریکی صدور کی فہرست میں انہیں ایک عظیم سکالر کا مقام حاصل ہے۔ تھامس جیفرسن امریکی تاریخ کے وہ واحد صدر تھے جنہوں نے مسلسل دو مرتبہ صدر رہنے کے باوجود کانگریس کے ایک بھی بل کو ویٹو نہیں کیا۔ یہ ان کی جمہوری مزاج کی شاندار مثال ہے۔ تھامس جیفرسن نے کہا تھا کہ ”جمہوریت ایک ہی وقت میں لوگوں کو آزادی اور پابندی نہیں دے سکتی“۔ یہ اس وقت کی ہرروشن خیال فرد کا رویہ تھا جو امریکہ میں آباد ہوا۔ امریکہ کا آئین بنانے والوں کا خیال تھا کہ ”اگر نئے امریکی شہری ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کو آزادی سے مکمل شیئر کرنے میں ناکام رہے تو ان کی صورتحال برطانوی بادشاہت کی تسلط میں رہنے سے بھی بدتر ہوگی جس سے وہ بھاگ کر آئے ہیں۔ امریکہ میں نئے آباد ہونے والے اپنے ساتھ جمہوریت اور آزاد ماحول کی شدید خواہش لے کر آئے ہیں۔ وہ اپنی پیچھے ڈکٹیٹرشپ اور معلومات پر سرکاری کنٹرول کی تاریخ چھوڑ آئے ہیں“۔ اس بات کو اپنا اصول بناتے ہوئے آئین لکھنے والی قوم کے رہنماﺅں نے ”دی بل آف رائٹس“ متعارف کرایا جو امریکی آئین میں پہلی ترمیم کہلاتی ہے۔ ”دی بل آف رائٹس“ کی پہلی دس ترامیم میں ایک فرد کی آزادی اور اسے سرکاری کنٹرول سے بچانے کی ضمانتیں دی گئی ہیں جن کے مطابق ”کانگریس ایسا کوئی قانون نہیں بنائے گی جو کسی شہری کی اظہار رائے کی آزادی اور میڈیا کی آزادی میں رکاوٹ ہو، مذہبی آزادی کی خلاف ہو، چرچ اور ریاست کو ایک کردی، لوگوں کے پُرامن طور پر اکٹھے ہونے میں مشکل ہو اور وہ گورنمنٹ کے خلاف اپنی شکایات کی پٹیشن جمع نہ کرا سکیں“۔ تقریر کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی، جمہوریت کی عیاشی نہیں بلکہ اسے لازمی بنیادی ضرورت ماننا چاہیے۔ ایک جمہوری طرز حکومت کے جاری رہنی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ہاں صحتمند تنقید اور اظہار رائے کی آزادی ہو۔ امریکہ کی ایک ترقی یافتہ سوسائٹی بننے کی وجوہات میں عوامی مکالمے اور عام لوگوں کی معلومات تک رسائی شامل ہیں جس کے لیے انہوں نے تقریر اور قلم کا بہت استعمال کیا۔ امریکی قوم کے رہنماﺅں نے یہ بات مسلسل مانی کہ اقلیتوں کے نظریات بھی سچائی رکھتے ہیں اور ان کے خیال میں یہی وجہ تھی کہ اقلیتی امریکی قوم نے برطانیہ کی اُس وقت کی ڈکٹیٹرشپ کے آگی زبان کھولی اور اسے شکست دی۔ تقریباً دوسو سال سے پہلے ترمیم بغیر کسی بڑی تبدیلی کے امریکی آئین میں موجود ہے۔ اس ترمیم میں زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی کیونکہ امریکیوں کے نزدیک ان کے قومی رہنماﺅں نے جمہوریت اور فرد کی آزادی کے بہترین اصول بتائے تھے۔ اسی لیے امریکی آئین میں پہلی ترمیم کو بہت اہمیت حاصل ہے اور وہ عوام میں سب سے زیادہ جانی پہچانی جاتی ہے۔ اگر ہم مستحکم معاشروں کی تاریخ پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہاں فرد کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جن معاشروں میں ایک فرد اپنے معاملات میں جتنا آزاد اور تقریروتحریر میں سرکاری کنٹرول سے جتنا باہر ہوگا وہ معاشرہ اُتنا ہی مستحکم اور دیرپا ہوگا۔ پاکستان میں 1973ءکے آئین میں آرٹیکل 19 شہری کو اظہار رائے کی آزادی کا بنیادی حق دیتا ہے جبکہ اٹھارہویں ترمیم میں 19A کے مطابق رائٹ ٹو انفارمیشن کا حق دیا گیا ہے۔ تاہم ان سہولتوں سے ہماری عوام الناس بے خبر ہے اور مذکورہ قوانین محض بڑی بڑی تقریروں یا تحریروں میں صرف مثالوں کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ آن گراﺅنڈ اِن کی پریکٹس نہ ہونےکے برابر ہے۔ اگر ایسی قوانین کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہو اور ان کا نفاذ عام شہری کے لیے بھی ممکن بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستانی بھی ایک ایسی سڑک پر چل نکلے جو مستحکم معاشرے کی طرف جاتی ہو۔ اِس سے اظہار رائے کی آزادی کا نظریہ دبنے کے بجائے زیادہ شعور کے ساتھ ابھرے گا اور شہری بھی سمجھ جائیں گے کہ امریکی صدر تھامس جیفرسن نے اسی لیے کہا تھا کہ ”جمہوریت ایک ہی وقت میں لوگوں کو آزادی اور پابندی نہیں دے سکتی“۔

مصنف کے بارے میں