الیکشن تو ملتوی ہو گئے

الیکشن تو ملتوی ہو گئے

چیف الیکشن کمیشن نے بدھ کی رات پنجاب کے الیکشن ملتوی کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا اب یہ الیکشن عام انتخابات کے ساتھ 8 اکتوبر کو ہوں گے۔ انہوں نے یہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 58 کے تحت کیا۔ ہم نے چونکہ طے کر رکھا ہے کہ بحیثیت قوم کسی بات پر بھی متفق نہیں ہونا اس لیے الیکشن ملتوی ہونے پر بھی کچھ لوگ اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں اور کچھ لوگ آئین ہی کے ایک آرٹیکل کا حوالہ دے کر کہہ رہے ہیں کہ آئین کہتا ہے اگر ایک کام اپنی مقرر مدت میں نہ ہو سکے تو وہ بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے جبکہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 58 کہتی ہے چیف الیکشن کمیشن الیکشن کا شیڈول تبدیل کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں دو رائے پائی جاتی ہیں اور یہ معاملہ لازمی سپریم کورٹ میں جائے گا لیکن سپریم کورٹ کے لیے اس پر فیصلہ کرنا موجودہ صورتحال میں اتنا آسان نہیں رہا اس لیے کہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے تحریک انصاف کے حق میں جس طرح اور جتنے فیصلے آ چکے ہیں اور جس طرح ایک ہی سماعت میں چند منٹ میں 9 کیسز میں ضمانتیں ہو جاتی ہیں اور جس طرح عدالتیں عمران خان کو رعایت دے رہی ہیں تو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ غلط ہو رہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومتی جماعتیں عوام میں اس تاثر کو قائم کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہی ہیں کہ عمران خان کا شمار اب بھی لاڈلوں میں ہوتا ہے۔ دوسری وجہ عدل و انصاف سے تعلق رکھنے والی انتہائی محترم شخصیات کے متعلق جو آڈیو لیکس منظر عام پر آ رہی ہیں اس پر کوئی جو چاہے کہے لیکن انھیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ابھی مزید کی خبریں بھی مارکیٹ میں گردش کر رہی ہیں۔ شنید ہے کہ وہ جو آ چکی ہیں ان سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ اس کے علاوہ بدھ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے جس قسم کی تقاریر ہوئی وہ بھی معاملات کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں اور ان سب سے ہٹ کر بھی کچھ امور ایسے ہیں لیکن ان تمام حقائق کے باوجود بھی سپریم کورٹ کو مکمل اختیار ہے کہ وہ جو چاہے فیصلہ کر سکتی ہے۔
 یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دونوں صوبوں میں جلد الیکشن ہونے پر تحریک انصاف کی سیاست کا دار ومدار ہے اور اگر یہ موخر ہوتے ہیں اور ان میں تاخیر ہوتی ہے تو یہ بات تحریک انصاف کی سیاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس بات کا اظہار عمران خان بھی کر چکے ہیں۔ بہت سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کا جلد اقتدار میں آنا ضروری ہے اس میں کچھ باتیں تو سمجھ آ رہی ہیں کہ انہوں نے وقتی فوائد کے لیے ہر ایک سے دشمنی مول لے رکھی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہر کسی کو ڈرا دھمکاکر شاید کام نکالا جا سکتا ہے اس چکر میں انہوں نے موجودہ آرمی چیف کے تقرر کے آخری دن تک روڑے اٹکائے مولا 
جٹ تو وہ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بھی بنے تھے لیکن وہاں بات بگڑی نہیں لیکن جس خاتون جج کو دھمکیاں دی گئیں ان کے خان صاحب کے متعلق کیا خیالات ہوں گے اسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ اس کے بعد ان کی راہ میں جو بھی آیا انہوں نے اس سے رتی بھر رعایت نہیں کی بلکہ انھوں نے اسلام آباد اور لاہور کے آئی جیز تک کو نہیں بخشا۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ان کے درمیان ایک قسم کی جو سرد جنگ تھی خان صاحب نے پنجاب اور اسلام آباد پولیس کی قیادت پر اپنے ہی سپاہیوں کے قتل کے سنگین الزام لگا کر اسے ایک کھلی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پولیس قیادت کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے خان صاحب کی ان الزام تراشیوں کے بعد بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور پھر اس صورت میں کہ جب حسب سابق عمران خان نے اپنے الزامات کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت بھی پیش نہیں کیے۔ حکومت نے عمران خان کے الزامات پر جے آئی ٹی بنا کر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے جو پندرہ دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ اس میں یقینا عمران خان کو بلا کر ان سے ثبوت مانگنے چاہئے اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو انھیں ریاستی اداروں میں انتشار پھیلانے اور اپنی قیادت کے خلاف اکسانے کے جرم میں مقدمہ قائم کر کے اسے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔یہ کام اس لیے بھی ضروری ہے کہ وطن عزیز میں اور خاص طور پر عمران خان اور تحریک انصاف کی دیگر قیادت کی سیاست چل ہی الزام تراشیوں پر رہی ہے۔ سائفر سے لے کر بیرونی سازش اور اس کے بعد مختلف لوگوں پر اپنے قتل کے الزامات لیکن اب ان سب کی حقیقت عوام کے سامنے لانا ضروری ہو چکا ہے۔
کسی اور نے نہیں بلکہ خود عمران خان نے اپنے خلاف کم مدت میں اور بغیر کسی وجہ کے اتنے محاذ کھول لیے ہیں کہ اب یہ سب خطرناک رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں اور جن قوتوں کو انہوں نے اپنا دشمن بنا لیا ہے وہ ان کے خلاف ضروری نہیں کہ کچھ کریں لیکن خان صاحب کو بخوبی اندازہ ہے کہ انہوں نے کس کے خلاف کیا کچھ کہا اور کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک حساس دفاعی ادارے کے سربراہ جنھیں یہ ایک نام سے پکارتے ہیں ان پر بغیر کسی ثبوت کے اپنے قتل کا الزام لگاتے ہیں اور اسی طرح اب پنجاب اور اسلام آباد کے آئی جیز پر بھی اپنے قتل کا الزام لگا رہے ہیں۔ درحقیقت یہ سب ان کے اپنے اندر کا خوف ہے جو انھیں کسی پل چین نہیں لینے دیتا کہ انہوں نے دوسروں پر جو بلا وجہ الزام تراشیاں کی ہوئی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے رد عمل میں کہیں حقیقت میں ویسا نہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں چونکہ الیکشن میں اپنی جیت کا یقین ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد انتخابات کے نتیجہ میں وہ دوبارہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچ جائیں اور جن افراد سے انہیں اپنی ذات کے حوالے سے خطرہ ہے انہیں 
عضو معطل بنا کر بے اثر کر دیا جائے لیکن ضروری نہیں کہ انسان کی ہر خواہش پوری ہو۔ انہوں نے لانگ مارچ سے لے کر جیل بھرو تحریک تک ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا اور ہمارے خیال میں مسلح جتھوں کا حصار بھی ان کے اندر کے خوف کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم نے خان صاحب کے جلدی الیکشن کے حوالے سے کچھ وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔ پنجاب کے الیکشن ملتوی ہونے پر سپریم کورٹ میں گھمسان کا رن پڑنے کے قوی امکانات ہیں اور اس میں حکومت کی پوری کوشش ہو گی کہ صوبوں اور وفاق کے انتخابات ایک ساتھ اکتوبر میں ہوں جبکہ تحریک انصاف کی کوشش ہو گی کہ انتخابات 30 اپریل کو ہی ہوں۔ اس میں ایک بات یاد رکھیں کہ یہ جو سارے آئین کی دہائیاں دے رہے ہیں تو پاکستان میں آئین کے ساتھ کم ہی لوگ ہوتے ہیں، سب اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ جس کا مفاد آئین کے کسی آرٹیکل سے مل گیا تو وہ آئین کی دہائی دینے لگ جاتا ہے اور جس کا مفاد آئین سے میل نہیں کھاتا تو وہ تاویلیں دینا شروع کر دیتا ہے۔ آئین اور قانون سے وابستگی کی بس اتنی سی حقیقت ہے باقی سب زیب داستاں کے طور پر بیان ہوتا ہے۔