گل لالہ کا دیس …ایمسٹرڈم

گل لالہ کا دیس …ایمسٹرڈم

ہندوستان میں برطانویوں سے پہلے ولندیزیو ں نے قسمت آزمائی کی تھی ۔اردوکا پہلا گرامرنگاربھی ایک ولندیزی تھا۔ ولندیزیوں نے اردومیں خاصی دل چسپی لی اور صدیاں بیتیں جب یہاں اردوکی تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔ہیگ اور ایمسٹرڈم یہاں کے مشہورشہرہیں۔ کہاجاتاہے کہ شہرتو ایمسٹرڈم ہی ہے باقی تو بس اس کاحاشیہ ہے۔ایمسٹرڈم، گل لالہ کا دیس ہے ،جسے انگریزی میں ٹیولپ کہاجاتاہے۔ گل لالہ کے علاوہ یہاں کی پہچان یہاں کی تین چارسونہریں ہیں جن پر بنے ہوئے سیکڑوں پل زندگی میں وصل کی بہاروں کے مظہربنے رہتے ہیں ۔سیکڑوں نہروں کے باعث اس شہرکو پانیوں میں گھراہوا نگربھی کہاجاسکتاہے گویا آدمی کی طرح ایمسٹرڈم بھی بلبلہ ہے پانی کا …
اس کی نہروں میں ہے اس طرح روانی پنہاں
جیسے  الفاظ میں  ہوتے  ہیں  معانی  پنہاں
فلائٹ ایمسٹرڈم پہنچی تو ہمارے لیے یہ یکسر ایک نیا خطہ تھا۔ ابھی ہم ایئرپورٹ کی وسعتوں میں گم تھے اور سامان کی بیلٹ تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ اچانک راستے میں ایک صاحب کھڑے دکھائی دیے۔ حذیفہ نے خیال ظاہرکیا کہ یہ صاحب ہمارا پاسپورٹ چیک کریں گے لیکن وہ صاحب ہماری جانب بڑھے اور قریب آکرکہنے لگے’’ زاہدصاحب …؟‘‘ارے ! نیدرلینڈزکے اس ایئرپورٹ پرمجھے میرے نام سے پکارنے والا یہ کون ہے …؟ جلدہی معما حل ہوگیا ۔وہ سفارت خانہ پاکستان ہالینڈ کے نمائندے مسٹرتقی تھے جو ہمیں لینے کے لیے ہیگ سے ایمسٹرڈم ایئرپورٹ آئے تھے۔ انھوںنے وہیں سے ہمارا دستی سامان سنبھال لیا اور سامان کی بیلٹ تک ہماری راہنمائی کرتے ہوئے لے گئے۔ ایئرپورٹ کی وسعتیں بے پناہ، راستے طویل، رفتار تیز، بھاگتے دوڑتے، برقی سیڑھیاں چڑھتے اترتے ،متحرک راستوں سے گزرتے ہم بالآخر سامان کی بیلٹ تک پہنچے ۔سامان کیاتھا ایک ہی بیگ تو تھا جس کے اس ظالم اطالوی خاتون نے زبردستی پچاس یورو وصول کیے تھے۔ بیچارہ بیگ جس میں پچاس یوروکاسامان بھی نہیں تھا …آئندہ اس سے بھی چھوٹا بیگ لے کرجائوں گا، میںنے دل میں سوچا …طویل راہوں سے گزرتے ہم بالآخر ایئرپورٹ سے باہر نکلے۔ باہر سفارت خانہ پاکستان کی ڈپلومیٹک کار ہماری منتظر تھی۔ سڑکوں کی کشاد، مناظر کا جمال، عمارتوں کی بلندی اور تنظیم وترتیب سب کچھ متاثر کن تھا۔ ہم ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں تھے۔ میں اردگرددیکھ رہاتھا، جہازایمسٹرڈم ایرپورٹ پر اتررہاتھا تو ہم نے کھڑکی سے شہر کے نقشے پر نظر ڈالی۔ روم کے مقابلے میں یہ زیادہ منظم شہر دکھائی دیاتھا۔ روم میں عمارتیں بکھری بکھری سی تھیں یہاں ایسا نہیں تھا، سارا خطہ آباد اور مرتب لگا۔ اب جب سفارت خانہ پاکستان کی گاڑی اس کی 
سڑکوں پر دوڑرہی تھی تو ہم اس کی ترتیب و تنظیم اور حسن و جمال کے نظارے بہ چشم سردیکھ رہے تھے۔ میںنے سفارت خانے کے نمائندے سے کہاکہ ہمیں کہیں رک کر پھول خریدنا ہیں …اچھا اگرراستے میں کوئی پٹرول پمپ آیاتو پھول لے لیں گے …میں نے کہا اچھا کیا پھول پٹرول پمپس پر ملتے ہیں…؟ پٹرول پمپ سے تو پٹرول کی بو آتی ہے ،پھولوں کی خوشبو کے لیے پٹرول پمپ جاناعجیب ساہے ۔وہ کہنے لگے جی ہاں یہاں پٹرول پمپوں پر پھولوں کا پوائنٹ ہوتاہے ۔نہ ہواایران کہ جہاں ہم نے قدم قدم پر گل فروشی کے نہایت دیدہ زیب پوائنٹس دیکھے تھے ۔ایسی دکانیں کہ جن پر خود پھول کا گمان ہو ۔ہمارے زمانہ قیام مصرمیں جب ابراج المصریہ میں گل فروشی کی دکانیں کھلیں تو ان پر پھول جاپان سے لائے گئے ۔ہمیں اقبال کی یادآئی …آئیں گے غسال کابل سے کفن جاپان سے …خیراس وقت تو ہم ایمسٹرڈم میں تھے جسے ٹیولپ کے پھولوں کی کثرت کی وجہ سے گل لالہ کادیس کہنا چاہیے ۔ تقی کہنے لگے یہاں شام پانچ بجے دکانیں بند ہوجاتی ہیں اس لیے اس وقت پھول نہیں مل سکتے۔ میںنے کہااگر پھول نہیں مل سکتے تو کسی مٹھائی کی دکان سے مٹھائی خرید لیں۔وہ کہنے لگے کہ اس وقت کچھ بھی نہیں مل سکتا حالانکہ رات نو بجے ہی کا توعمل تھا۔ راستے آباد، سڑکیں روشن، لوگ متحرک تھے لیکن یہاںدکانیں سرشام بندہوجاتی ہیں اور صبح سویرے کھلتی ہیں …یہ بات ہم اٹلی میں سن چکے تھے، یونان میں بھی یہی دیکھاتھا کہ سرشام بازاربندہوجاتے ہیں اور صبح سویرے دن کا آغازہوتاہے۔ یہ تو ہمارے بازاروں ہی کا وصف ہے کہ رات دیر تک کھلے رہتے ہیں اور صبح دیرتک سوئے رہتے ہیں ۔کوئی گھنٹہ بھر گاڑی چلتی رہی میںنے اپنی منزل کا پتہ بتایا اور ساتھ گوگل میپ بھی دکھایاتوتقی نے کہاکہ نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں بس ایڈریس ہی کافی ہے اور اس نے میرا بتایا ہوا ایڈریس  نیوی گیشن میں  فیڈکیااور گاڑی کو اس سمت میں روانہ کردیا۔جب اس نے بتایاکہ ہم مطلوبہ علاقے میں  پہنچ گئے ہیں تو میںنے کہاکہ میں اپنے میزبان سے آپ کی بات کرائوں؟ اس نے کہانہیں اس کی ضرورت نہیں بس ہم ایک منٹ میں ان کے گھر کے سامنے ہوں گے اور واقعی  ایک منٹ کے بعد ہم اپنے میزبان کے گھر کے سامنے تھے ۔وہ دونو میاں بیوی دروازے کھولے ہمارے منتظرکھڑے تھے۔ میں فاروق خالدصاحب سے پہلی بار مل رہاتھا۔ روبینہ تو میری شاگردرہ چکی ہیں اور انھی کی دعوت پر ہم یہاں آئے تھے۔ انھوںنے ایمسٹرڈم کی ورجی یونی ورسٹی میں میرالیکچربھی رکھا ہوا ہے۔ فاروق صاحب اردو کے سینئر لکھنے والوں میں سے ہیں اور مجھ سے عمر میں بڑے ہیں۔ ان سے تعارف کے دورن بہت سے مشترک حوالے نکلتے چلے آئے، اتنے میں روبینہ سلطان نے کہاکہ آئیے کھانا کھائیے …روبینہ کی دو ننھی بچیاں عدن اور شمل ہیں وہ اس وقت تک سوچکی تھیں ۔ان سے تو صبح ہی ملاقات ہوسکی کھانے کے بعد میرے گلے کی حالت کے پیش نظر روبینہ نے قہوہ پلایا اور کچھ دیر گپ شپ ہوئی اور پھر دونومیاں بیوی ہمیں چھوڑنے کے لیے ہمارے کمرے میں لے گئے ۔

مصنف کے بارے میں