یاسین ملک اور پاکستان

یاسین ملک اور پاکستان

 بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں کی مذہبی ،انسانی اور جمہوری آزادیاں سلب ہیں مگر کشمیر میں تویہ صورتحال اور بھی خراب ہے ہرروز سختی اور ہرشب ظلم و جبر ہوتا ہے بلکہ گزشتہ دو برس سے تو مقبوضہ کشمیر عملاََ جیل ہے لیکن عالمی طاقتیں اور مذہبی ،انسانی اور جمہوری حقوق کے دعویداراِدارے خاموش ہیں اصل میں یہ دہرا معیارہی دنیا میں تنازعات بڑھانے کا باعث ہے جب تک مذہبی اورانسانی حقوق کی بات کرتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے تب تک دنیامیں حقیقی امن خواب ہی رہے گا ۔
5اگست2019کے یکطرفہ اقدامات کے بعدسوچی سمجھی سازش کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت ختم کرنے ،ریاست کی ہندو شناخت بنانے اور موجودہ سیاسی قیادت کو منظر سے ہٹانے کے منصوبوں پر کام جا ری ہے ریاست میں مسلمان سیاستدانوں کی گرفتاریوں اورگھروں سے دورنظر بندیوں کے دوران اُنھیں ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے آزادی اظہار کی بات کرنے والے بھارت میں یہ کشمیری سیاستدان بر س ہا برس سے بلاجواز نظر بند ہیں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ انتہا پسند ہندو قیادت کی طرح عدالتیں بھی فیصلے کرتے ہوئے جانبدار ی کا مظاہرہ کرتی ہیں بابری مسجد کا فیصلہ مذہب کو دیکھ کر کیا گیا ہے حیران کُن بات تو یہ ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی بات کرنے والے باضمیرلوگ بھی احتجاج نہیں کرتے کیونکہ ایک تو اُنھیں ہندو انتہاپسندوں کے حملوں کاخوف ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کو ریاستی پالیسی بنانے والی حکومت سے بھی گرفتاری اور نظربندی کا خدشہ ہے اسی لیے مظلوم اقلیتوں اور پسے طبقات کے حق میں کم ہی آوازیں اُٹھتی ہیں لیکن اِس فسطائیت کے خلاف ہمارا بھی ردِ عمل کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں اقتدار کی کشاکش میں مظلوم کشمیریوں اور آبی جارحیت سے آنکھیں موند رکھی ہیں جس سے بھارت کو ظلم و جبرکرنے اور قتل و غارت کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔
طویل عرصہ سے زیرِ حراست سید علی گیلانی جیسے معروف کشمیری رہنما کی وفات کے طبعی ہونے پر آج تک شکوک برقرار ہیں کیونکہ بھارتی فوج نے نہ صرف اہلِ خانہ کو اُن کی وصیت کے مطابق تدفین کی اجازت نہ دی بلکہ جسدِ خاکی چھین کر زبردستی فوجی پہرے میں سپردِ خاک کر دیا یہ انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے آخری رسومات کی ادائیگی پرقدغن لگانے کی دنیا کہیں اور ایسی مثال نہیں ملتی افسوسناک امر تو یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے اہم فریق پاکستان کی طرف سے عملی کارروائی کے بجائے اِس مذموم حرکت کی محض زبانی کالامی مذمت کی گئی حالانکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان بطور فریق مسئلہ کشمیر اِس حوالہ سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے جب تک پاکستان ذمہ داریوں سے کوتاہی کا مرتکب رہے گا بھارت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آسکتا خوش قسمتی سے اِس وقت بلاول بھٹو زرداری ملک کے وزیرِ خارجہ ہیں جن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے لیے ہزار سال جنگ لڑنے کا عزم ظاہر کیا تھا اب بلاول کی ذمہ داری ہے کہ اپنے نانا کے مشن کی تکمیل کے لیے بھی عملی طور پر متحرک ہوں۔
دہلی کی تہاڑ جیل میں غیر قانونی طورپرنظر 
بندچھپن سالہ کشمیری رہنما یاسین ملک کومنظرِ عام سے ہٹانے کا بھارت تہیہ کر چکاہے تاکہ کشمیریوں کو مایوس کیا جاسکے یاسین ملک نے اپنی جوانی کشمیریوں کی آزادی پر قربان کر دی ہے اور اِس وقت طویل عرصہ سے گرفتاری اور نظر بندی سے شدید علیل اور نہایت ہی کمزور ہو چکے ہیں لیکن اِس لاغر شخص سے بھی بھارتی حکومت خوفزدہ ہے اور جان چھڑانا چاہتی ہے نام نہاد عدالتی کارروائی کے دوران گزشتہ دنوں یاسین ملک پر اُن کے چھ ساتھیوں سمیت فردِ جُرم عائد کر دی گئی ہے جس کی رواں ماہ پچیس مئی کو دوبارہ سماعت ہورہی ہے جس کے متعلق خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اِس تاریخ پر یاسین ملک سمیت اُن کے چھ ساتھیوں کو سزا سنادی جائے گی عدالت نے سزاسنانے سے قبل یاسین ملک کی جائیداد اور اثاثوں کی تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں تاکہ سزا سناتے ہوئے جائیداد اور اثاثے بھی ضبط کرنے کاساتھ ہی حکم دیا جا سکے یہ انصاف نہیں بلکہ سراسر انصاف کی موت ہے اِس ناانصافی کے خلاف اقوامِ عالم کو بیدار کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے وگرنہ سید علی گیلانی کے بعد ایک اور کشمیری رہنما سے محرومی کے لیے تیار ہو جائیں یادرکھیں بھارت اخلاق واصول کی نہیں صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے چین نے اسی زبان کئی بار سمجھایا ہے تبھی بھارت کو اُس کے خلاف اب کسی مذموم سازش یا کارروائی کی ہمت نہیں ہوتی اگر پاکستان نے بھی یکطرفہ امن پسندی سے بڑھ کر کچھ نہ کیا تو یہ کشمیر کو ہڑپ کرنے سمیت ہمیں پیاسا مارنے کے منصوبوں پر بھارت کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگا ۔ 
یاسین ملک جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین ہیں اِس تنظیم پر بھارت نے 2019سے پابندی لگا رکھی ہے اور یہ تنظیم اپنے سربراہ کی گرفتاری اور پابندی کی وجہ سے عملاََ غیر فعال ہے پھر بھی بھارت چاہتا ہے کہ یاسین ملک کو کسی طرح سیاسی منظر سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا جائے ایک تیس سالہ پرانے ایسے کیس میں ملوث کرتے ہوئے اُنھیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے  جس میں 1990کے دوران فضائیہ کے چھ اہلکار ہلاک ہو گئے تھے اب اُسی کیس میں ملوث کرتے ہوئے سزا سنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے 2017 میں ایک جھوٹے مقدمے میں بھارت کے بدنام زمانہ تحقیقاتی اِدارے این آئی اے کی عدالت نے 19 مئی کوفردِ جرم لگاکرمجرم ٹھہرایا ہے علاوہ ازیں دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کا بھی مرتکب قرار دیا گیا ہے حالانکہ سب کو بخوبی معلوم ہے کہ اُن کا جرم صرف یہ ہے کہ اُنھوں نے کشمیر پر غاصبانہ بھارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کی ہے وادی میں جاری ظلم و جبر اور ماورائے عدالت قتلوں کی مذمت کی ہے مظلوم کشمیریوں کو حقِ خوداِرادیت کی بات کی ہے یہی اُن کا اصل جرم ہے جس کی پاداش میں اب دہشت گردی اور قتل کے مقدمات کا سامنا ہے آصف زرداری خود جو بائیڈن سے دوستی کا اعتراف کر چکے ہیں اگر اِس دعوے میں صداقت ہے تو بلاول کو فوری طورپر امریکہ سے یاسین ملک کے خلاف بے بنیاد مقدمے کے تحت ہونے والی کارروائیوں کے متعلق بات کرنی چاہیے قومی مفاد کے لیے دوستی سے فائدہ اُٹھانا ہی حُب الوطنی ہے ۔
اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنرمشیل بیچلیٹ اِس وقت چین کے دورے پر ہیں اور اعلیٰ چینی قیادت سے ملاقاتوں کے علاوہ اب جنوبی صوبے گوانگ ڈونگ اور شمال مغربی سنکیانگ کا دورہ کرنے والی ہیں پاکستانی حکومت کے لیے یاسین ملک کیس میں اپنے دوست ملک چین کی مدد لینے کا یہ نہایت اہم موقع ہے کیونکہ چین اور پاکستان کو اکثر مذہبی اور انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی دبائو کا سامنا رہتا ہے دونوں ملک کشمیر کے حوالے سے اگر مل کر کام کریں تو بھارتی حکومت کو نامنصفانہ فیصلوں سے روکا جا سکتا ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل ،ہیومن رائٹس واچ،اور اقوامِ متحدہ کو یاسین ملک کی ممکنہ سزا کے خلاف حکومت نے خط لکھ کر جُرم کی سنگینی کاکچھ احساس کیا ہے مگرکوئی اِدارہ کیوں یاسین ملک کی سزا کے موضوع کو دنیا میں اُجاگر کرنے میں کردار ادا کرے گا؟ جب تک پاکستان خود اِس حوالے سے متحرک نہیں ہوگا فرضی بنیادوں پر عمر قید کی سزا سنانا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے یہ آزادی جیسے بنیادی حقو ق کے بھی منافی ہے جسے عدالتی قتل کہناہی عین انصاف ہے پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ عالمی برادری ،اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم سے بیک وقت رجوع کرے اور بھارتی حکومت کے سنگین مظالم کے خلاف عالمی برادری کو بیدار کرنے کا کام فوری طورپر اور ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جائے اِس سے قبل کہ دیر ہو جائے بطور مسئلہ کشمیر کے اہم فریق بلاتاخیر ذمہ داریوں کوپوراکیا جائے۔

مصنف کے بارے میں