بھارتی جارحیت، اراکین قومی اسمبلی نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا مطالبہ کر دیا

بھارتی جارحیت، اراکین قومی اسمبلی نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا مطالبہ کر دیا

اسلام آباد:  قومی اسمبلی میں جمعہ کو لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی حملوں کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اراکین نے دھواں تقاریر کرتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔بھارت کو پتہ چل جائے گا کس قوم سے پالا پڑا ہے۔ بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان کو بعض علاقائی ممالک بشمول ایران سے دوریاں پیدا کرنے کے ذمہ داران کو جواب دہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اراکین نے بھارت کو مثالی سبق سکھانے کے بارے میں چیف آف آرمی سٹاف کے بیان پر عملدرآمد کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔تمام سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنما صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ توجہ ہٹانے کے لئے معصوم آبادی کو نشانہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں بات ہو رہی ہے۔ جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں نے قربانیوں کی وجہ مسئلے کی شدت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ حکومت ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کی صورتحال پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔

قبائلی رہنما غازی گلاب جمال نے کہا کہ اپنے پرامن رہنے کے تاثر کو برقرار رکھا جائے۔ اعجاز الحق نے کہا کہ پاکستان کافی عرصہ سے حالت جنگ میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی کارروائیوں کو بھرپور انداز میں عالمی میڈیا میں اجاگر ہوا جس پر بھارت توجہ ہٹانے کے لئے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر حالات کو خراب کر رہا ہے۔ ہمارے وفد نے یورپی یونین سے ملاقات کی۔ پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی سربراہ نے مقبوضہ کشمیر کے حالات کا نوٹس لیا اور کشمیر کی صورتحال دیکھنے کیلئے آبزرور گروپ بھجوانے کا کہا۔ مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کی بینائی سے محرومی اور پیلٹ گن سے متاثرہ چہروں کی تصاویر دیکھیں تو بیلجیم اسمبلی کے سپیکر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور یقین دہانی کروائی کہ وہ اس معاملے پر بھارتی سفیر کو بلائیں گے۔ ہم نے رپورٹ میں تمام سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک کی سفارش کی ہے جو 24 گھنٹے کام کریں۔ بھارت نے سرحد کے قریب بفر زون بنا رکھا ہے۔ ہماری طرف ایسا نہیں ہے جس کی وجہ سے سول آبادی کا نقصان ہو رہا ہے۔ 16 سے زائد مرتبہ بھارتی ہائی کشنر کو طلب کیا گیا ہے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ چیف آف آرمی سٹاف کے اس بیان کہ ایسی مثال قائم کریں جسے بھارتی نصاب میں پڑھایا جائے کا پر عملدرآمد کیا جائے۔ پاکستان بھی جارحانہ پالیسی بنائے اور پارلیمنٹ میں توثیق کیلئے پیش کی جائے۔ کمیٹی اور کمیشن بنائیں۔ کوئی مسئلہ حل نہ کرنے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ میں معاملات کو لے جایا جائے۔ دوطرفہ بات چیت کی بات کی جاتی ہے۔ کس سے دیوار سے بات کریں۔ سارک کانفرنس کو سبوتاژ کیا گیا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما ایاز سومرو نے کہا کہ بھارت ایمبولینسوں پر حملے کر رہا ہے۔ ہم چپ بیٹھے ہیں اگر اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دینگے اور مذمت تک محدود رہیں گے تو ایسے حملے ہوتے رہیں قوم متحد ہے مگر حکومت کی پالیسی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ذاتی تعلقات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ دعوتوں میں مدعو کیا جا رہا ہے۔ خارجہ کے وزیر کون فاطمی، سرتاج عزیز یا وزیراعظم خود ہیں۔ فارن پالیسی زیرو ضرب زیرو ہے۔ سارے پاکستانی سفیر سفارش پر رکھے گئے ہیں۔ کشمیر پر مشترکہ پارلیمانی وفود بیرون ملک جانے چاہئیں۔ خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ میں آج تک حکومت پاکستان نے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ خارجہ پالیسی کو مضبوط تر کرنے کی ضرورت اور کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرنے کیلئے دنیا کے کونے کونے میں جائیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک ابرار نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے ہر فورم پر کشمیریوں کا حق ادا کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ بزنس تباہ ہو چکے ہیں۔ اس تباہی و بربادی کے باوجود کشمیریوں نے واضح کیا ہے کہ کسی صورت بھارتی غلامی کو قبول نہیں کرینگے۔ پاک فوج ہمت و جرات کے ساتھ بھارت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ بھارت کو پتہ چل جائے گا کس قوم سے پالا پڑا ہے۔ بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ قبائلی رکن مولانا نے کہا کہ کشمیر کمیٹی کو صرف سفارشات مرتب کرنے کا اختیار ہے۔ اللہ نہ کرے جنگ چھڑ جائے۔ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق حل کیا جائے۔ وزیراعظم پاکستانی قوم کی اقوام متحدہ میں ترجمانی کر چکے ہیں۔ پارلیمنٹ اتحاد و اتفاق کے بغیر مسئلے کے حل میں کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ کشمیر پر سیاست نہ کی جائے۔ متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا اگر موقع ملا تو قبائل ہی کشمیر کو آزاد کروائیں گے۔ پاکستان کی سالمیت، عزت و وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

پی پی پی رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ اس مسئلہ پر ابھی تک کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ بھارت کشمیر اور ایل او سی پر جو مظالم کر رہا ہے سب کا دل دکھی ہے۔ مذمت کرتے ہیں، کسی کو گالی دھمکی دینا آسان کام ہوتا ہے کہ اب کے کر کے دیکھو ہم دیکھ لیں گے۔ ہمیں سنجیدگی سے بات کرنی چاہئے۔ بھارت پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنا چاہتا ہے۔ ایٹمی آپشن کو آؤٹ آف کنٹرول نہیں ہونا چاہئے۔ عالمی برادری کو پاکستان کے اس صبر و تحمل سے آگاہ کیا جائے مگر ہماری ڈپلومیسی اور پروپیگنڈہ کمزور ہے۔ کوئی زمینی حقائق نہیں دیکھتا۔ بھارت اپنی حیثیت اور افادیت کا فائدہ اٹھا دیا ہے۔ امریکہ، روس یورپی ممالک کے لئے بھارت ایک بہت بڑی ابھرتی مارکیٹ اور معیشت بن چکا ہے اور دنیا اتنی بڑی تعداد میں صارفین کی منڈی کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ پاکستان کو سوچنا چاہئے کہ وہ ایران اور بشمول دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ دور کیوں ہوا ہمیں طویل المدتی مضبوط خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو تنہا کرنے کے بھارتی اعلانات ادراک کرنا ہو گا۔سید نوید قمر نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی اور مستقل وزیر خارجہ کی تقرری کے مطالبات کو دہرایا۔