چورحکمران۔۔ سہولت کارعوام

چورحکمران۔۔ سہولت کارعوام

جہاں قدم قدم پرچور،ڈاکواورراہزن بیٹھے ہوں وہاں پھرکسی سے گلہ کیا۔۔؟یہاں دودھ کی رکھوالی پربھوکی بلیاں ہم نے خود مامورکیں اوراب گلہ ہم دوسروں سے کر رہے ہیں ۔کہتے ہیں مومن ایک سوراخ سے دوبارنہیں ڈساجاتالیکن کیااس ملک میں ایک ہی سوراخ اورایک ایک سیاسی سانپ اوربچھوسے ہم سوسوبارنہیں ڈسے گئے۔ یہاں ہرگھر،محلے اورگلی میں چور،ڈاکواورراہزن قالین بچھائے بیٹھے رہے مگرافسوس ہم نے کبھی آس پاس دیکھنے کی کوئی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔کہتے ہیں 71سال میں کرپٹ اورچورحکمران وسیاستدان ملک کھاگئے۔حکمران اورسیاستدان توسیاست اور اقتدار میں آتے ہیں ملک کھانے کے لئے ۔ان کاتوکام ہی دوسروںکے منہ سے نوالہ چھیننا۔غریبوں کی زمینوں پرقبضے کرنا۔اسلحے کی نوک پربھتے لینااوربھرتیوں شرتیوں کے بدلے اپنی تجوریاں بھرنا۔جوشخص الیکشن جیتنے کے لئے ایک کروڑلگائے گاوہ پھردوکروڑتوکمائے گابھی نا۔ لوٹ مارتوان حکمرانوں اورسیاستدانوں کاکام ہے سویہ توہم سب مان رہے ہیں کہ انہوں نے لوٹ ماروالایہ کام پوری ایمانداری سے کیابھی ہے۔لیکن سوال اب یہ ہے کہ بحیثیت ایک قوم ہم نے ان 71یا72سال میں کیاکیا۔۔؟کیاحکمرانوں اورسیاستدانوں کی لوٹ مار،ظلم وستم ،عیش وعشرت اورشاہانہ طرززندگی کاتماشادیکھنابھی کوئی کام ہے۔۔؟کتنے تعجب کی بات ہے کہ حکمران اورسیاستدان 71سال تک ملک کودیمک کی طرح کھاتے رہے اورہم ۔۔؟ہاتھوں پرہاتھ رکھ کرکسی سنسنی خیزمیچ کی طرح  ان کاتماشادیکھتے رہے۔عام لوگ توویسے بھی سادہ سے اورشعورسے دوربہت دورہوتے ہیں ۔ان تک شعورکے پہنچتے پہنچتے حالات بھی پھرہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں ۔اس وجہ سے ایسے لوگوں کوکسی مرض،تباہی اوربربادی کاخاص ذمہ دار قرارنہیںدیاجاسکتاکیونکہ ایسے لوگ تین میں ہوتے ہیں اورنہ ہی تیرہ میں ۔کون ملک کاصدرہے اورکون وزیراعظم ۔۔؟ان کوتواس کابھی نہیں پتہ ہوتا۔ہمارے گائوں سے ملحقہ بھیڑنامی گائوں میں عبدالرشیداستادہوتے تھے اب فوت ہوگئے ہیں اللہ ان کی قبرپرلاکھوں اورکروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔آمین۔وہ بھی ہمارے ان عام عوام کی طرح حددرجے کے سادہ تھے۔اپنی سادگی اوربزرگی کی وجہ سے لوگ دوردورسے اپنے لئے دعا کرانے ان کے درپرآتے تھے ۔وہ بچوں کے ساتھ بڑی شفقت اورمحبت کامظاہرہ کرتے ۔ہم بھی جب چھوٹے تھے ان کوجہاں دیکھتے فوراًاس کے اردگردجمع ہوجاتے۔وہ پھرہمیں کوئی وعظ ونصیحت کرتے یاپھرجیب میں ہاتھ ڈال کرہمیں کوئی ٹافیاں شافیاں دے دیتے ۔ایک بارالیکشن کے موقع پرایک دن صوبائی اسمبلی کے ایک امیدواران کے گھر پر حاضر ہوئے۔ دعا سلام کے بعداستادجی کی خدمت میں عرض کی کہ میں الیکشن لڑ رہا ہوں میرے لئے دعا کریں۔ استاد  نے ان کی کامیابی کیلئے دعاکی ۔دوسرے دن اس کے مخالف امیدواربھی استادجی کے گھرپہنچے اوراپنی کامیابی کے لئے حضرت سے دعاکی درخواست کی ۔استادجی نے اسی طرح ان کی کامیابی کے لئے بھی دعاکرادی۔اس امیدوارکے جانے کے بعدبیٹے نے کہا اباجی کل آپ نے اس کو کہا اللہ آپ کوکامیاب کرے۔آج اس کو کہا اللہ آپ کو کامیاب کرے۔ کامیاب توان دونوں میں سے ایک ہوگا۔اس نے کہامجھے کیاپتہ۔۔؟مجھے توان دونوں نے دعاکیلئے کہامیں نے کردی۔توایسے سادہ لوگوں سے توگلے اورشکوے کاکوئی تک بنتانہیں ۔ان حالات کے اصل ذمہ دارہم وہ لوگ ہیں جوحکمرانوں سے زیادہ چالاک اورسیاستدانوں سے خودکو زیادہ سیانے سمجھتے ہیں ۔چنددن پہلے ایک صاحب ملے ۔جوپیشے کے اعتبارسے ٹیچراورایک سرکاری سکول میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔کہہ رہے تھے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں ۔مہنگائی اس قدربڑھ گئی ہے کہ اب تنخواہ میں گزارہ بھی نہیں ہورہا۔یہی صاحب الیکشن کے دنوں میں ایک بارہمیں ملے توہم نے ازراہ مذاق پوچھا۔ووٹ کس کودیں گے۔۔؟تویہ سنتے ہی اس نے مونچھوں کوتائودیتے ہوئے ایک خان کانام لیا۔کہ میرے باپ دادابھی اسی خان کوووٹ دیتے تھے ۔ان کے مرنے کے بعداب ہم بھی پابندی کے ساتھ اسی خان صاحب کوووٹ دے رہے ہیں۔فرض نمازوں کی ہم کبھی پابندی نہیں کرتے لیکن خانوں اورنوابوں کے مفت میں تلوے چاٹنے میں ناغہ ہم سے کبھی برداشت نہیں ہوتا۔جس طرح بنی اسرائیل والے کہتے تھے کہ ہم اپنے آبائواجداد کے طورطریقوں ،رسم ورواج اوردین کونہیں چھوڑسکتے آج اسی طرح ووٹ کے معاملے میں ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم آبائواجدادکی پارٹی کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ووٹ کے معاملے میں اگر تم آبائو اجداد والے کرپٹ، چور اور ڈاکو خانوں، نوابوں، چوہدریوں، رئیسوں اوروڈیروں کو نہیں چھوڑ سکتے توپھرمہنگائی،غربت،بیروزگاری اور لوٹ مارکے یہ گلے اورشکوے دوسروں سے کیوں ۔۔؟کہتے ہیں کہ بندرنے ایک بارکہیںخودکوآگ لگائی۔جب جسم سے آگ کے شعلے بلندہوناشروع ہو گئے تواس نے چیخ وپکارشروع کردی۔ساتھی قریب جمع ہوگئے۔پوچھنے لگے ۔آگ کس نے لگائی۔ بندر بولی۔ خود نے۔ تو ساتھی کہنے لگے اب دوسروں سے گلہ نہ کرنا۔ چوراورڈاکوحکمران ہم خوداپنے اوپرمسلط کرتے ہیں پھرجب وہ گوشت نوچنے اورخون پینے کے بعد ہماری ہڈیوں کوبھی چوسناشروع کردیتے ہیں توتب ہماری آنکھیں کھلنا شروع ہوجاتی ہے ۔ووٹ دیتے وقت برسوں پہلے دنیاسے جانے والے آبائواجدادکی سیاسی وابستگیاں توہمیں یادرہتی ہیں لیکن اپنے اورقوم کے مستقبل کی ہمیں کوئی فکرنہیں ہوتی۔ایوب خان ، ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف،آصف علی زرداری اور اب یہ عمران خان یہ سارے آسمان سے اترکرنہیں آئے نہ ہی یہ ڈائریکٹ مسنداقتدارپرپہنچے بلکہ ان سب کوہم ہی نے اپنے ہاتھوں اورکندھوں پراٹھاکراقتدارکی کرسی تک پہنچایا۔ان میں سے کئی حکمرانوں اورسیاستدانوں نے پھر واریوں پر واریاں لگائیں ۔مومن توایک سوراخ سے دوبارنہیں ڈساجاتا۔ان میں سے جوغلط تھے ان کے ہاتھوں پھرہم باربارکیوں ڈسے۔۔؟ہم نے انہیں دوبارہ پھراپنے اوپرکیوں مسلط کیا۔۔؟کیا ہماری یہ آنکھیں اسی طرح وقت گزرنے اوردھواں اٹھنے کے بعدہی کھلتی ہیں ۔۔؟ وقت سے پہلے ہم آگ کی تپش محسوس کیوں نہیں کرتے۔۔؟71سال سے دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونے بنتے بنتے کیا اچھے اوربرے کی تمیزبھی ہم بھول گئے۔۔؟ حالات اوردنیاکے ساتھ چلنااورآگے بڑھنا ہوتا ہے۔ آبائواجدادکے طورطریقے اورسیاسی وابستگیاںحرف آخرنہیں کہ انہوں نے جوکیاتووہ ہم بھی کریں گے۔۔؟وہ بھی ہمارے جیسے انسان تھے ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی تھیں ۔پھروہ توپانچ وقت پابندی کے ساتھ نمازبھی پڑھاکرتے تھے۔ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک والامعاملہ بھی کرتے تھے ۔ان کے ہاتھ سے انسان کیا کسی جانورکوبھی کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔کیاان کے یہ اچھے والے کام بھی ہم کرتے ہیں ۔۔؟اس بارے میں توہم نے کبھی سوچااورنہ کبھی سوچنے کی زحمت گوارہ کریں گے۔بس ایک سیاست ہے ۔برسوں سے چنے گئے ان کے سیاسی بت جوآج کسی کام کے نہیں ان پراپنے ووٹ خراب کرکے ثواب اپنے ان آبائواجدادکے نام کرتے رہتے ہیں۔ ناکارہ سیاسی بتوں پرتکیہ کرنایہ آبائواجدادپرتوکوئی احسان نہیں لیکن اپنے اوراس قوم پرظلم بہت بڑاظلم ضرورہے۔آخرکب تک ہم لکیرکے فقیربنیں گے۔۔؟یہ توقانون فطرت ہے کہ اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتی جس قوم کواپنی حالت آپ بدلنے کاخیال ،سوچ اورفکرنہ ہو۔ہم کب تک اپنے ہی ہاتھوں اپنے اورقوم کے روشن مستقبل کایونہی جنازہ نکالتے رہیں گے۔یہ ملک آج جس مقام تک پہنچاہے۔قوم مسائل کی جس دلدل میں دھنس اور پھنس چکی ہے۔ اس میں کرپٹ اور چور حکمرانوں اور سیاستدانوں سے زیادہ بڑا ہاتھ اور کردار ہمارا اپنا ہے۔ لٹیرے حکمران اور سیاستدان بھی اس ملک اورقوم کے مجرم ہیں لیکن ان سے پہلے اس ملک وقوم کے بڑے مجرم اورگناہ گارہم خودہیں ۔ہم اگران بلوں کے گلے میں چربی نہ باندھتے تووہ اسے کبھی نہ کھاتے۔ دوسروں کوگالیاں دینے اور برا بھلا کہنے سے پہلے ایک بارہمیں اپنے گریبان میں بھی ضرور جھانکنا چاہئے۔ہم اگرسہولت کارنہ بنتے تویہ ملک اس طرح کبھی نہ لٹتا۔