عدل اب بڑھکوں سے نہیں دبے گا!

 عدل اب بڑھکوں سے نہیں دبے گا!

کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے بڑی خاص پلاننگ کے تحت اداروں کو بدنام کیا جارہا ہے اور اِس میں اُن اداروں سے وابستہ شخصیات اپنا پورا حصہ ڈال رہی ہیں، اگلے روز ایک سابق جج صاحب نے ایک سابق چیف جج کے بارے میں جو ہوش رُبا تفصیلات مجھے بتائیں، میں وہ ’’توہین عدالت‘‘ کے خدشہ کے تحت لکھ بھی نہیں سکتاہمارا یہ بھی ایک المیہ ہے جبکہ حضرت عمرؓ کے فیصلوں پر تنقید کا لوگوں کو پورا حق حاصل تھا، اُن سے بڑھ کرمنصف بھلا کون ہوسکتا ہے، مگر ہم اپنے کچھ منصفوں پر یا اُن کے کچھ متنازعہ فیصلوں پر بات کرتے ہوئے ہزار مرتبہ سوچتے ہیں اور پھر بالآخر یہی مناسب سمجھتے ہیں ’’توہین عدالت‘‘ کی زد میں نہ ہی آیا جائے تو بہتر ہے، ایک اور بات کی آج تک مجھے سمجھ نہیں آسکی، ایک عدالت کے فیصلے سے دوسری عدالت اگر اختلاف کرے اور اُس فیصلے کو رد کردے تو کوئی ’’توہین عدالت‘‘ نہیں، لیکن اگر ایک عام شخص کسی عدالتی فیصلے کو ردکرنا تو دور کی بات ہے، ذرا سی اُس پر تنقید بھی کرلے وہ توہین عدالت کا مرتکب قرار پاتا ہے، … سہیل وڑائچ کی زبان میں اب ہم کس سے پوچھیں ’’کیا یہ کُھلا تضاد نہیں؟‘‘…ہمارے اکثر سیاسی و اصلی حکمران یہ ارشاد فرماتے ہیں’’ہم کسی کو اپنی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے‘‘… بندہ پوچھے کسی اور کو آپ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے؟اِس مقصد کے لیے آپ خود ہی کافی نہیں؟، آپ کی اپنی میلی آنکھوں کے ہوتے ہوئے کوئی یہ کام کیوں کرے گا؟، عدلیہ سے وابستہ کچھ شخصیات کے کچھ کارنامے یا کرتوتیں عدلیہ کے کچھ اپنے ہی لوگوں کے ذریعے سامنے آرہے ہیں تو ایسے میں عوام کو اِس ادارے کو میلی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت بھلا کیوں محسوس ہوگی؟… اگلے روز ہمارے محترم چیف جسٹس آف پاکستان عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں بڑے سیاسی انداز میں جوکچھ فرمارہے تھے ہم من وعن بادلِ نخواستہ اُس پر یقین کربھی لیں یہ سوال تو قائم رہے گا عدلیہ نے اپنے وقارکو بحال کرنے یا قائم کرنے کے لیے اب تک کتنے اقدامات کیے ،اگر عدلیہ واقعی کسی کے دبائو میں کبھی نہیں آئی، اپنے فیصلے کرنے میں وہ اگر واقعی خودمختار ہے، آزاد ہے، ایسی صورت میں کیا ہم یہ تصور کرسکتے ہیں؟ یا ہمیں یہ تصور کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے پھر عدلیہ اپنی کچھ خرابیوں کی ذمہ دار خود ہے؟…ایک طرف محترم چیف جسٹس صاحب سیاسی انداز میںفرمارہے تھے اُن کے ساتھیوں پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا، دوسری طرف اُن ہی کے ادارے سے وابستہ سابق نثار کے حوالے سے جو گندگی پھیلتی جارہی ہے، یقین کریں اُسے کسی نہ کسی طریقے سے صرف ڈھانپا ہی جاسکتا ہے، اُس کی بُو ختم نہیں کی جاسکتی، اِس بُو کو ختم کرنے کے لیے بقول حسن نثار تیزاب سے غسل دینے کی ضرورت ہے، جوظاہر ہے ناممکن ہے، … ممکن ہے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد پر واقعی کوئی اثرانداز نہ ہوسکتا ہو، نہ اُن کے موجودہ ساتھیوں پر ہوسکتا ہو، مگر جب کسی وجہ سے کوئی غلط فیصلہ ہوتا ہے، چاہے وہ کسی ’’ذاتی دبائو‘‘ کے نتیجے میں ہی کیوں نہ ہو اُس کے منفی اثرات کی لپیٹ میں پورا معاشرہ پورا ادارہ آتا ہے، …جوکچھ عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ تقریب میں محترم چیف جسٹس آف پاکستان فرمارہے تھے، کچھ ایسی ہی باتیں ماضی میں عدلیہ سے وابستہ کچھ متنازعہ شخصیات فرماتی رہی ہیں، ہم اُس وقت بھی اُن کی اِن باتوں پر من وعن یقین نہ کرنے کے عمل کو ’’توہین عدالت‘‘ سمجھتے رہے، مگر اُن کے جانے کے بعد اُن کی جو ’’کالی کرتوتیں‘‘ یا کالے کارنامے ظاہر ہوئے اُس کے بعد کون آنکھیں بند کرکے اِس مؤقف کو تسلیم کرے گا یا اِس کی تائید کرے گا عدلیہ فیصلے کرنے میں مکمل طورپر آزاد ہے‘‘ …سو میرے خیال میں  اللہ کے بخشے ہوئے ایک اور سنہری موقع کو غنیمت جان کر اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرنے کے عمل کو بلاتاخیر شروع کر دینا چاہیے، اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے، یا یہ صرف وہی کرسکتا ہے جس کا ایمان اِس پر بڑا مضبوط ہو اُس کا رازق اُس کا رب ہے، وہی عزتوں ذلتوں کا مالک ہے، زندگی وموت بھی اُسی کے اختیار میں ہے، … بزدل، منافق، جھوٹے اور نمائشی لوگ یہ کام ماضی میں کرسکے، حال میں کرسکیں گے نہ ہی مستقبل میں اُس کا کوئی امکان ہے … وہ صرف بڑھکیں لگاتے رہیں گے، اور یہ سمجھتے رہیں گے اُن کے فیصلے اگر نہیں بھی بولتے کم ازکم اُن کی بڑھکیں تو لوگوں کو سننے کے لیے مِل ہی جاتی ہیں، … کل ایک ’’دُکھیارا‘‘ مجھ سے کہہ رہا تھا پچھلے پندرہ برسوں سے اُسے انصاف نہیں مِل رہا، میں نے عرض کیا تم انصاف کو گولی مارو، تم مجھ سے محترم چیف جسٹس آف پاکستان کی اُس ’’ولولہ انگیز تقریر‘‘ پر بات کرو جو اگلے روز اُسی تقریب میں اُنہوں نے کی جس تقریب میں ایک ’’ملزم‘‘ نواز شریف نے کی … جہاں تک جناب ثاقب نثار کا تعلق ہے ، اُن پر جوگندگی اُچھل رہی ہے یا اُچھالی جارہی ہے اُس سے ذراہٹ کر اگر دیکھا جائے اُن کا کون ساایسا کارنامہ ہے جس کی بنیاد پر ہم پر یہ لازم ہو ہم اُنہیں ہمیشہ عزت وقدر کی نگاہ سے ہی دیکھیں جیسے جسٹس ایم آرکیانی، جسٹس کارنیلس ، جسٹس حمدانی خصوصاً جسٹس رانا بھگوان داس کو آج تک ہم دیکھتے ہیں، … عدلیہ سے وابستہ سب سے بڑی شخصیت سے لوگ یہ توقع کرتے ہیں وہ اپنی پوری قوت پوری توجہ نظام عدل کو درست کرنے پر دے گا، کیونکہ کسی ملک کسی معاشرے کا صرف ایک نظام (نظام عدل) اگر درست ہو باقی سارے نظام خودبخود درست ہوجاتے ہیں، ہمارے اگر سارے نظام خراب ہیں، آئی سی یو میں ہیں، آخری سانسیں لے رہے ہیں تو اِس کی سب سے زیادہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں… بدقسمتی اور المیہ یہ ہے ان کرسیوں پہ زیادہ تر ایسے لوگ براجمان رہے جنہوں نے اپنے چھابے پر توکوئی توجہ نہیں دی کہ کتنا گلاسڑامال اُس میں موجود ہے، وہ صرف دوسروں کے چھابوں پر چھاپے مارتے رہے، دوسروں کے چھابوں سے گندہ مال وہ نکال سکے نہ ہی اُن کے اپنے چھابے سے نکل سکا، ہمارا المیہ یہ ہے ہم سب دوسروں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں خود نہیں ہونا چاہتے، میں بڑے بوجھل دِل سے یہ کہنا چاہتا ہوں ہمارے محترم سابق نثار بھی اسی المیے کا شکار رہے۔ (جاری ہے)