جہانگیر ترین کی کمپنی سے متعلق جواب میں بے ایمانی نظر نہیں آتی : چیف جسٹس

جہانگیر ترین کی کمپنی سے متعلق جواب میں بے ایمانی نظر نہیں آتی : چیف جسٹس


اسلام آباد: جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہانگیرترین کے کیس میں ایمانداری کودیکھناہے،جہانگیرترین کی کمپنی سے متعلق جواب میں بے ایمانی نظرنہیں آتی ،بظاہرفارن کرنسی اکاونٹ سے رقم بیرون ملک منتقل ہوئی ہے،جبکہ جہانگیر ترین کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت 7نومبر تک ملتوی کردی ۔


آج چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق مسلم لیگ ن کے رہنماء حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت کی ۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جہانگیرترین کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جہانگیرترین نے اپنی ڈکلیئر آمدن سے رقم باہر بھیجی اور یہ رقم اپنے اکاونٹ سے بھجوائی انہوں نے 2011میں 25لاکھ4ہزارپاونڈ باہربھیجے ،2012 میں 5لاکھ پاونڈ رقم منتقل کی گئی،2011میں 11لاکھ ڈالرزکی رقم باہرمنتقل ہوئی،لندن سے باہرگھرکی تعمیرکے لیے بینک سے قرضہ لیاگیا۔


جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ بینک سے قرض کب لیاگیا،جس پر سکندر بشیر نے عدالت کو بتایا کہ اگست 2011میں گھرکی تعمیرکے لیے قرض لیا گیااس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیایہ قرض جہانگیرترین نے اداکیا،اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ 21لاکھ پاونڈ کا قرض جہانگیرترین نے بینک سے لیا،جہا گیرترین ٹرسٹ کو رقم بھیجتے تھے بینک سے قرضہ آفشور کمپنی نے لیا،شائنی ویوکمپنی بینک کوقرضہ اداکرتی تھی ۔


جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیالندن کاگھراثاثہ نہیں ہے ،اس پرجہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ لندن کاگھرقانونی طورپرجہانگیرترین کااثاثہ نہیں ہے۔