مہنگائی کم ہوگی؟ پتا نہیں

Mushtaq Sohail, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

سیانے کہتے ہیں کہ تمام تر اقدامات یقین دہانیوں اور روزانہ اجلاس سے مہنگائی کم نہیں ہوگی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے گملوں میں پروان چڑھنے والے ماہرین معاشیات بھی مایوس ہیں، ایشیائی ڈویلپمنٹ بینک نے کہہ دیا کہ پاکستان میں مہنگائی خطے کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ ماہرین معاشیات تو یہاں تک کہہ گئے کہ قرائن بتاتے ہیں کہ مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہوگا قیمتوں پر گہری نظر رکھنے والے ایک صاحب نے تو پُر جوش لہجہ میں کہا شرط لگا لیں آئندہ دنوں میں بھی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ اس لیے جس قدر ممکن ہوسکے گھبرا لیں اختلاج قلب میں کمی ہوگی، پی ٹی آئی کے ایک دوست نے البتہ کہا کہ ”ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا“ پوچھا کیوں بولے ”جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکہ کھائیں کیا“ وجہ کیا ہے؟ کوئی ایک ہو تو بتائیں یہاں تو ”گھر کا گھر بیمار ہے کس کس کو دیں ٍتسکین ہم“ مہنگائی کی وجوہات کوئی نہیں بتاتا پتا سب کو ہے“ بے کلی بے سبب نہیں غالب، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“ بیڈ گورننس یا خراب طرز حکمرانی، باتیں ہی باتیں عملی اقدامات ندارد، کمزور گرفت، ناتجربہ کاری، اچھی ٹیم میسر نہیں، اجلاسوں میں وزرا مہنگائی پر پھٹ پڑے علاج کسی کے پاس نہیں،کسی کے ساتھ مل بیٹھ کر کام کرنے کی فطرت ہے نہ عادت، بد امنی، عدم استحکام، معیشت کی شاہراہ پر مخالف سمت چلنے سے بیروزگاری میں اضافہ، کتنی وجوہات بتائی جائیں ”کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں“رہی سہی کسر آئی ایم ایف نے پوری کردی۔ سچ پوچھیے تو سب سے بڑا دشمن آئی ایم ایف ہی نکلا،ا ابتدا میں اپنوں نے ہی منع کیا تھا کہ آئی ایم ایف سے دل نہ لگانا ورنہ پڑے گا پچھتانا۔ ناتا جوڑا اس نے ناطقہ بند کردیا اب”ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے“ اس نے غریب کا چولہا ٹھنڈا، پیٹ خالی کردیا، سڑکوں پر نہ نکلیں تو کیا کریں 23کروڑ عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ شرمناک سوچ، المناک رجحان،گورنر اسٹیٹ بینک جیسا ذمہ دار شخص عوام کے زخموں پر نمک پاشی کر رہاہے۔ کہا آئی ایم ایف سے قرضہ منظور ہونے کی جلد خوشخبری سناؤں گا۔ ڈالر بڑھنے سے بیرون ملک پاکستانیوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ صد حیف ملک کی معیشت سدھارنے آئے تھے یا پوری قوم کو مزید قرضوں میں جکڑنے کے لیے بلائے گئے تھے۔ خواجہ آصف نے تو گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں کہہ دیا کہ مصر کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد پاکستان کی باری ہے، حضرت والا کو آتے ہی اس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا، اپنوں کو سوچنا چاہیے تھا ہم کس سمت جا رہے ہیں سیانے کہتے تھے ”چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی“ ہم تو مخالف ہوا کے چلے اور لق و دق صحرا میں بھٹک گئے۔ 3 سال بعد بھی سمت اور راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ بقول غالب ”چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ، پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں“ قومی 
اسمبلی سے چیخیں بلند ہو رہی ہیں سرکاری بینچوں والے ابھی تک سابق حکومتوں کو صلواتیں سنانے میں مصروف ہیں، کمال ہے بلکہ بے حسی کی انتہا کہ اتحادیوں کو بھی مہنگائی نظر نہیں آتی۔ مان لیا چودھری شجاعت اتنے ضعیف ہو چکے ہیں کہ انہیں سڑکوں پر بھوکوں کا لشکر نظر نہیں آتا۔ اتحادی بننے کے شوق میں بصارت سماعت سب رخصت، چودھری پرویز الٰہی تو ابھی کام کے ہیں لیکن سیاسی مصلحتوں نے بصارت بصیرت سب چھین لی۔ باقی اتحادی بھی پہلو ضرور بدل رہے ہیں لیکن جانے کس اشارے کے منتظر ہیں۔ صاحب نے اجلاس طلب کیا اور وزیروں مشیروں سے کہا کہ لوگوں کو بتاؤ ملک میں مہنگائی نہیں ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ وزیروں نے یک زبان ہو کر کہنا شروع کر دیا کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے اسد عمر نے تو یہاں تک دلاسہ دیا کہ آئندہ مارچ تک مہنگائی کم ہو جائے گی، سننے والے ایک ستم ظریف نے جل بھن کر کہا۔ ”مہنگائی کر کے کہتے ہو مہنگائی تو نہیں، ساری وضاحتیں گئیں پیمان تو گیا“ اللہ شوکت ترین کی نوکری قائم رکھے، وزیر خزانہ (اب مشیر خزانہ) بننے سے پہلے کہا کرتے تھے۔ حکومت کی سب سے بڑی غلطی آئی ایم ایف کے پاس جانا تھا اور اس کی شرائط تسلیم کرنا تھیں۔ وزیر خزانہ بنتے ہی آئی ایم ایف کے بے دام غلام جو حکم میرے آقا سیلز ٹیکس، استثنیٰ، سبسڈیز ختم، روپے کی قدر مٹی میں مل گئی اپنی قدر نہ رہی تو روپیہ کیا کرے گا ڈالر 174 روپے کی حد عبور کر گیا۔ قرضے کتنے بڑھے کسی طرم خان کو اندازہ نہیں، حال مست کھال مست، بجلی پیٹرول گیس کی قیمتوں میں ہر پندرہ روز مہینے بعد اضافہ، 3 سالوں میں پیٹرول 72 روپے ڈیزل 83 روپے مہنگا ہوا۔ گیس کے بلوں میں سلیبز کے عنوان سے اضافہ، بل دگنے تگنے،عوام کی تگنی کا ناچ نچایا جا رہا ہے۔ پیٹ پر روٹیاں باندھ کر باہر نکلیں تو اپنے شیخ صاحب انہیں چوروں ڈاکوؤں کے کارندے قرار دے دیں۔ مہنگائی کیسے کم ہوگی؟ اہم سوال کسی چیز پر کنٹرول نہیں، درآمدات تین گنا برآمدات انتہائی کم۔ گندم چینی تک باہر سے درآمد کرنے کی مجبوری، اپنی فصلیں ارد گرد کے”ٹڈی دل“ کھا گئے اپنی چینی بلکہ ساری شیرینی سستے داموں باہر بھیج دی اور باہر سے تلخی بھری ناقص چینی مہنگے داموں درآمد کرلی۔ حالات میں تلخی اسی لیے تو لبالب بھر گئی ہے،کمانے والوں نے اربوں کما لیے ہم این آر او نہ دینے کی دھمکیاں نشر کرتے رہے بلکہ یوں کہیے اربوں کمانے والوں نے رفعتیں چھولیں ہم خودی کو بلند کرتے رہے۔ متعدد سوالات ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں۔ مہنگائی کب کم ہوگی۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں جب حکومت جائے گی۔ اتحادی کب علیحدہ ہوں گے؟ احسن اقبال کا کہنا ہے جب اشارہ غیبی ہوگا۔ کیا مارچ تک مہنگائی ختم ہوجائے گی ایک لاہوریے نے جل کر کہا جب ہم ختم ہوجائیں گے۔ غریبوں کو رعایتی نرخوں پر اشیائے صرف کب ملیں گی۔ جب پلان بنے گا جب اس پر عمل ہوگا۔ جب تک سارے سوالات کے جوابات نہیں ملیں گے اس وقت تک مہنگائی کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھتی جائے گی۔ سنا نہیں ما شاء اللہ پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ہفتہ کے دوران 29 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ مہنگائی کی شرح مزید 1.38 فیصد اضافہ کے ساتھ 14.48 فیصد ہوگئی جبکہ کم آمدنی والوں کے لیے 15 فیصد اور غریبوں کے لیے 17 فیصد تک جا پہنچی۔ ابھی تک گمان کہ لوگ ان کے فدائی اور تبدیلی کے منتظر ہیں جبکہ حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ معاشی پالیسیوں پر بھروسہ نہ کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ 57 فیصد عوام نے مخالفت میں ووٹ دیا 7 فیصد ابھی تک منتظر فردا ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے مہنگائی کے خلاف مظاہرے کیے۔ شیخ صاحب پریشان تو ہوئے مگر یہ کہہ کر اپنوں کو تسلی دی کہ اپوزیشن جمعہ جمعہ کھیل رہی ہے۔ شیخ صاحب جسے کھیل سمجھ رہے ہیں کھیل ہی کھیل میں کوئی پریشانی نہ مول لے لیں۔ سمجھدار آدمی تھے نمک کی کان میں نمک ہوگئے ”ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد“۔ تحریک شروع ہوگئی ہے۔ اپوزیشن کسی بھی مرحلہ پر ایک ہوگئی تو سارے خواب بکھر جائیں گے جیسے عوام کے خواب مہنگائی کی آگ میں بھسم ہو گئے۔