تعصب کی عینک اتارنا ہو گی

تعصب کی عینک اتارنا ہو گی

FATF کی گرے لسٹ سے نکلنا پوری قوم کی کامیابی، بلاول بھٹو، حنا ربانی کھر اور جنرل باجوہ نے ذمہ داری کے ساتھ اس معاملے کو کامیابی تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ پریس کانفرنس میں وزیراعظم کا بیان ہے۔ اس کردار میں انہوں نے اپنا ذکر نہیں کیا کیونکہ تعصب کی عینک اتاریں تو مناظر درست نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیٹف کے معاملے پہ نیازی ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا رہا۔ الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلہ جس میں سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دیا گیا ہے پورے ٹوئٹر، فیس بک اور اخبارات یا مین سٹریم میڈیا میں ان کے حمایتی منہ سے جھاگ نکال رہے ہیں۔ جن کو گاؤں کے چودھری نالی کا کیڑا سمجھتے تھے بلکہ نسل در نسل یہ حقارت اور ذلالت ان کا مقدر تھی اور وہ اس مقدر کو تسلیم کر چکے تھے وطن عزیز کی تاریخ میں جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ان کو انسانوں میں شمار کرایا آج وہ بلاول بھٹو کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ وہ عمران کو کرپٹ کہہ رہے ہیں۔ ذرا تعصب کی عینک اتاریں اور مجھے بتائیں یہ جو اس فیصلہ پر مایوس ہیں کسی نے اس کو غلط، بے بنیاد یا جھوٹا مقدمہ قرار دیا۔ 2011کے بعد سیاست میں وہی ہوا عمران نے چاہا۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کا ایک سیمینار تھا جس میں پہلے 90 روز کے حوالے سے اسد عمر نے کہا تھا کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان، تب یہ وزیراعظم نہیں تھے، تو وزیراعظم عہدہ اپنے نام کے ساتھ سن کر عمران خان کے چہرے کی رنگت، باڈی لینگوئج، گوگل پر دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہو گا کہ اقتدار ان کی زندگی ہے۔ بو علی سینا ایک مسافر خانہ میں تھے تب دنیا کے ممالک سرحدوں میں ہونے کے باوجود ایک کھلی دنیا تھے۔ بادشاہ کا بیٹا بیمار پڑ گیا، بو علی سینا جو ایک فلاسفر، مورخ، سفر نامہ نگار، حکیم، علم فلکیات کے ماہر اور ایک ہمہ جہت عالم تھے مسافر خانہ میں بیمار ہونے والوں کا علاج بھی کر رہے تھے اور ساتھ اپنی مسافرت کے دن بھی گزار رہے تھے۔ ان کی شہرت بادشاہ تک پہنچی تو بادشاہ نے بیٹے کے علاج کی درخواست کی۔ بو علی سینا محل میں آئے، بیمار شہزادے کے چہرے پر نظر ڈالی، نبض پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ اس کے اتالیق یا جو ساتھ رہتا ہے اس کو بلائیں، انہوں نے بلا دیا۔ بو علی سینا نے کہا کہ ان ممالک کے نام لو جس جس ملک میں یہ گیا ہے۔ اس نے چند ریاستوں کے نام لیے، پھر اس نے ریاست کے شہروں کے نام، پھر شہر میں اس گھر کے مالک کا نام وہ والیٔ ریاست یا وہاں کے بادشاہ کا نام تھا پھر گھر کے افراد کا نام، ایک لڑکی کے نام پر بو علی سینا نے نبض چھوڑ دی اور کہا کہ شہزادے اطمینان رکھیں، اس کی شادی آپ سے کر دی جائے گی۔ بادشاہ سے کہا کہ اس کو عشق و مودت ہے، اس کی اس لڑکی سے شادی کا بندوبست کریں۔ بو علی سینا سے عرض کی گئی، آپ کو کیسے معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی نبض ملک، شہروں، ناموں پر اپنے انداز رفتار بدلتی گئی اور لڑکی کے نام پر جو کیفیت تھی وہ ایک حکیم ہی جانتا ہے۔  مگر آج بو علی سینا کی ضرورت نہیں عمران خان کی نبض پر ہاتھ رکھیں، آئین، قانون، ادارے، سیلاب، ملکی سلامتی، قومی یکجہتی، اسلام پسندی، جمہوریت، بادشاہت، ممالک، شہر سب کے نام لیں مگر جب آپ کہیں گے کہ ’’وزیراعظم عمران خان‘‘ تو ان کی نبض کی رفتار، آواز اس شہزادے جیسی ہو جائے گی۔ لہٰذا نیازی صاحب کو صرف وزارتِ عظمیٰ چاہئے، این آر او تو ابھی راستے میں ہے۔ چار صوبوں میں بھلے حکومت ہے مگر وزارتِ عظمیٰ ان کے لیے جل بن مچھلی ہے۔ 50 لاکھ نوکریاں، ایک کروڑ گھر، پانچ سال میں پاکستان یورپ سے بہتر ہو گا۔ جنرل باجوہ تاریخ کے بہترین جرنیل ہیں، تیسرے مہینے ہی توسیع دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اللہ کرے میرے خلاف عدم اعتماد آئے، اللہ کرے 62/63 کی شق مجھ پر لگے۔ کبھی یہ شق ہونی چاہئے، کبھی یہ نہیں ہونی چاہئے۔ یاد رکھئے نہیں ہونی چاہئے تب تھا جب پاناما نہیں تھا اور ہونی چاہئے جب پاناما چل رہا 
تھا۔ ایک پیج کب مشہور ہوا، بل پاس کرانے کے لیے ایجنسیوں سے کہنا پڑتا تھا۔ جنرل حمید گل سے جنرل پاشا، ظہیر اسلام سے ہوتا ہوا سفر اب تک گلوں شکووں کے ساتھ کس کے ساتھ قائم رہا۔ سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ کس کے لیے تھی۔ عثمان بزدار کو ہٹ دھرمی کے ساتھ کس نے مسلط کیے رکھا۔ ملک میں دو قوانین ہیں ایک غریبوں کے لیے ایک امیروں کے لیے۔ آصف زرداری، میاں نوازشریف، شہبازشریف، حمزہ شہباز، مریم نواز، جناب ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کیا غریب ہیں، جیلوں میں نہیں گئے اور پھر اچانک آپ آج غریب ہو گئے۔ کیا توشہ خانہ کیس غلط ہے، کیا ممنوعہ فنڈنگ غلط ہے، کیا بدزبانی، بد کلامی، الزام تراشی، یو ٹرن نیازی صاحب کی سیاست نہیں ہے۔ کیا طاقت کا سرچشمہ عوام کے بجائے ٹوئٹر اور پنڈی کو نہیں سمجھتے؟ یہ کس نے کہا تھا کہ میں ٹماٹر اور آلو کی 
قیمتیں ٹھیک کرنے نہیں آیا۔ ہیلی کاپٹر کا سوار کون تھا۔ یہ جو مبشر لقمان بشریٰ بیگم اس کے خاندان اور آپ کے بارے میں وی لاگ پر وی لاگ ٹھوک رہے ہیں، عدالت میں جائیں۔ سب سے بڑھ کر نیازی دور میں صرف احتساب کو انتقام بنایا گیا، قوم کو تقسیم کیا گیا، گالی رواج بنا دی گئی، خلاف تہذیب گفتگو پر فخر کرنا شروع کر دیا گیا۔ نیازی صاحب کے لیے بلاول بھٹو نے درست کہا کہ پہلے انسان بنیں پھر سیاست دان ۔ نیازی صاحب کے دور میں جھوٹے مقدمات قائم ہوتے رہے آج سچے مقدمات کا فیصلہ عدالتوں نہیں سڑکوں اور ٹوئٹر پر چاہتے ہیں۔ بڑا مشکل ہوتا ہے دکھ کی گھڑیاں گزارنا۔ عرفان صدیقی صاحب دو دن حوالات اور جیل میں رہے اور 6 کالم لکھ دیئے ابھی زرداری صاحب کے 12 سال، بھٹو صاحب کی بے گناہ سزائے موت اور قید، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی قید اور ضیا کی سختیوں کا تصور تو کریں، آپ ہنسنا بھول جائیں گے۔ ریلوے پھاٹک کے ساتھ پیدل گزرنے والوں کے لیے ایک ریوالونگ سا جنگلہ لگا تھا، ایک شخص گزر سکتا تھا۔ دو آدمی آمنے سامنے آ گئے اور پہلے گزرنے کی ضد کرنے لگے۔ ایک کے منہ سے شراب کی بُو آ رہی تھی اور نشے میں بھی لگ رہا تھا دوسرا نارمل حالت میں تھا۔ دونوں میں تکرار ہوئی، نارمل آدمی اس کو شرابی کا طعنہ دینے لگا، دوسرے کو شرابی احمق کہے جائے۔ جو لوگ جمع تھے انہوں نے شرابی سے کہا، تم نے غیر شرع کام کیا ہوا ہے اور اس کو احمق کہہ رہے ہو۔ شرابی نے جواب دیا، میرا نشہ آدھے گھنٹے میں اتر جائے گا، اس کو معلوم ہے میری حالت درست نہیں مگر یہ احمق ہے اس کا نشہ ساری زندگی رہے گا اور یہ ساری زندگی احمق رہے گا۔ عمران نیازی نے ساڑھے تین سال میں اپنے آپ کو پارلیمانی، جمہوری نظام اور حکومت کے لیے نا اہل ثابت کیا۔ الیکشن کمیشن نے تو صرف سرٹیفیکیٹ جاری کیا ہے، واحد غیر سیاسی مگر سیاسی رہنما ہے جس کا کوئی نظریہ نہیں کوئی مقصد نہیں سوائے وزیراعظم کہلانے کے۔ دوسرے نشے تو کوئی ڈاکٹر چھڑا سکتا ہے مگر حماقت کا نشہ، بے وفائی کی فطرت، بے حسی کی عادت کوئی نہیں چھڑا سکتا۔ تجزیہ کاروں اور ٹوئٹر کے پہلوانوں کو چاہئے کہ تعصب، نفرت اور حماقت کی عینک اتار کر اظہار کریں ورنہ ایک ناقابل تلافی قومی سانحہ اور نقصان منتظر بھی ہے اور قریب بھی۔