بھارت میں ٹرپل میوٹینٹ وائرس بھی سراٹھانے لگا

بھارت میں ٹرپل میوٹینٹ وائرس بھی سراٹھانے لگا
سورس: file photo

نئی دہلی ،بھارت میں ٹرپل میوٹینٹ نامی وائرس بھی سراٹھانے لگا ،ٹرپل میوٹینٹ، جسے ’’بنگال اسٹرین‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے، اب تک مغربی بنگال کے علاوہ دہلی، مہاراشٹر اور چھتیس گڑھ کی ریاستوں کے کورونا مریضوں میں سامنے آچکا ہے۔

تفصیلات کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس کی حالیہ خوفناک وبا میں دو تبدیلیوں والے ’ڈبل میوٹینٹ‘‘ کووِڈ 19 وائرس کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے، وہاں اسی وائرس کی تین تبدیلیوں والی نئی قسم ’ٹرپل میوٹینٹ‘ نے بھی سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔

 بھارتی ریاست بنگال سے ٹرپل میوٹینٹ کورونا وائرس کی دریافت کے بعد ماہرین میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے تاہم ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ وائرس کی نئی قسم زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہے یا نہیں۔

بھارتی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ٹرپل میوٹینٹ ایک نیا دردِ سر بن سکتا ہے کیونکہ اس میں ایک ساتھ دریافت ہونے والے تین تغیرات (میوٹیشنز) ممکنہ طور پر اس کا پھیلاؤ تیز رفتار بنانے میں مددگار محسوس ہوتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ ان ہی تغیرات کی بدولت یہ وائرس خود کو جسمانی مدافعتی نظام (امیون سسٹم) کی نظروں سے اوجھل رکھتا ہے جبکہ ویکسین لینے اور وائرس کے سابقہ حملے میں صحت یاب ہوجانے والے افراد کو بھی دوبارہ بیمار ڈال سکتا ہے۔

یہ خیال بھی ہے کہ ڈبل میوٹینٹ کے مقابلے میں ٹرپل میوٹینٹ کا پھیلاؤ زیادہ تیز رفتار ہوسکتا ہے جبکہ بہت ممکن ہے کہ کورونا وائرس کی موجودہ ویکسینز بھی اسی ٹرپل میوٹینٹ کے خلاف ناکارہ ثابت ہوجائیں۔

وائرس کے بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈبل میوٹینٹ میں نمایاں تبدیلیوں اور ارتقاء پذیری کے نتیجے میں ٹرپل میوٹینٹ کا وجود میں آنا ایک ایسا امکان ہے جسے بالکل بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایومیڈیکل جینومکس کے ڈاکٹر سریدھر چنّاسوامی کا کہنا ہے کہ ٹرپل میوٹینٹ میں ایک خاص تغیر (E484K) ایسا بھی ہے جو اس سے پہلے جنوبی افریقہ اور برازیل سے سامنے آنے والی کورونا وائرس کی اقسام میں دیکھا گیا تھا۔

یہ تبدیلی وائرس کو دوبارہ حملہ آور ہونے میں مدد دینے کے علاوہ اس کے تیز رفتار پھیلاؤ اور ویکسین کی تاثیر کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اگرچہ ٹرپل میوٹینٹ کے بارے میں بہت سی باتیں ابھی تک نامعلوم ہیں لیکن یہ لاعلمی ہی اس کے بارے میں زیادہ تشویش کو جنم دے رہی ہے۔