معیشت ، بجٹ اور عوام کی اْمید!

معیشت ، بجٹ اور عوام کی اْمید!

کہتے ہیں اْمید بہت بری چیز ہے، یہ لگا لو تو کہیں کا نہیں چھوڑتی، نہ لگاؤ تو جاگتی آنکھوں خواب نہیں آتے، اور جسے خواب نہ آئیں تو وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔اسی لیے ’’اْمید‘‘ کے بارے میں انسان ہمیشہ شش و پنج میں مبتلا رہا ہے۔ ہزاروں سال پہلے جب ایک یونانی فلاسفر ارسطو سے یہ پوچھا گیا کہ وہ اْمید کو کس طرح سے بیان کریں گے تو اْنہوں نے جواب دیا: ’’اْمیدکھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کا نام ہے۔‘‘ اور اِس کے صدیوں بعد جب ایک امریکی سیاستدان بینجمن فرینکلن سے اْمید کے حوالے سے بات کی گئی تو اْس نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا: ’’اْمید سے پیٹ بھرو گے تو بھوکے مرو گے۔‘‘مطلب تاریخ بھی اس حوالے سے خاصی شش و پنج میں مبتلا نظر آتی ہے کہ کسی سے اْمید لگانی چاہیے یا نہیں۔ تبھی تو شاعر ندا فضلی کہتے ہیں کہ 
کوشش بھی کر اْمید بھی رکھ راستہ بھی چن 
پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر 
جی ہاں یہ ہلکی پھلکی تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ حکومت بدلنے کے فوری بعد آپ یہ اْمید نہ لگائیں کہ ملک میں معاشی استحکام آجائے گا، ڈالر نیچے آجائے گایا پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ فی الوقت ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ بس دعا کریں کہ موجودہ حکومت ہی شاید معاشی استحکام لے آئے اور ملک کو ایک جگہ پر کھڑا کر دے ورنہ صورتحال یہی رہی تو خاکم بدہن یہ ملک کو دیوالیہ ہونے تک لے جائے گا۔ اور تازہ ترین معاشی حالات کی اگر بات کریں تو اس وقت بجٹ سر پر ہے، ایک طرف عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے باتیں کی جا رہی ہیں جبکہ دوسری طرف وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل امریکا میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہے ہیں اور آخری خبریں آنے تک پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطالبات مان لیے، ملک میں پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہوگا، بجلی کی قیمت بھی بڑھائی جائے گی۔یعنی آئی ایم ایف قرض پروگرام میں توسیع کے حوالے سے مذاکرات میں پاکستانی وفد نے تیل اور بجلی پر سبسڈی واپس لینے کی شرط مان لی۔ مطالبات ماننے پر آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے اپنے قرض 
پروگرام میں توسیع دینے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔اور پھر جب سے نئی وفاقی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے ان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کیونکہ ایک طرف واضح حکمت عملی کا فقدان دکھائی دے رہا ہے اور دوسری طرف انہوں نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو ٹی وی پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالرز قرض پروگرام بحالی کے لیے پانچ سخت شرائط رکھ دی ہیں۔ ان میں پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کا خاتمہ، بزنس ایمنسٹی اسکیم کا خاتمہ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، 13 کھرب روپے پرائمری بجٹ خسارے کو 25 ارب روپے کے پرائمری بجٹ سرپلس میں تبدیل کرنا اور نئے ٹیکسز لاگو کرنا شامل ہیں۔
خیر جب آپ نے آئی ایم ایف کی اس قدر شرائط مان لی ہیں تو دنیا میں کوئی ایسی جادو کی چھڑی نہیں ہے جو مہنگائی کو کنٹرول کر سکے گی۔ لیکن اگر اسی قرض جو متوقع طور پر 6کے بجائے 8ارب ڈالر ہے کو حکومت صحیح جگہ استعمال کرکے اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کے حوالے سے کام کرے ، انڈسٹری کا پہیہ چلائے، لگژری آئیٹمز کی درآمد پر پابندی لگائے ، اور ٹارگٹ رکھ کر معاشی استحکام لائے تو ہم کافی حد تک مستحکم ہو سکتے ہیں۔ ورنہ سری لنکا کا حال سب کے سامنے ہے کہ وہ کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے دیوالیہ ہوگیا۔ وہاں گزشتہ کئی عشروں سے دو خاندان حکومت کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک بندرا نائیکے اور دوسرا ’’راجا پاکسے‘‘ خاندان ہے۔ ان خاندانوں کے نوجوان اب دنیا بھر کے تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر ملک میں فوج سے لے کر سیاست تک ہر شعبے میں نام پیدا کررہے ہیں لیکن حیرت انگیزطور پر سری لنکا مسلسل نیچے کی طرف لڑھک رہا ہے۔ سری لنکا کے لوگوں کو بھی ہماری طرح یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ملک تباہ ہونے کے باوجود ان دو خاندانوں کے کاروبار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں پھیل رہے ہیں اور وہاں سے آنے والے پیسے کے ذریعے یہ سری لنکا میں سیاست کررہے ہیں۔
جس طرح کچھ عرصہ قبل یہاں گو نواز گو کے نعرے لگا کرتے تھے، بالکل اسی طرح اب وہاں پر بھی ’’گو گوٹا گو‘‘ کے نعرے مقبولیت اختیار کر چکے ہیں۔ گوٹا دراصل وہاں کے بہتر سالہ صدر لیفٹیننٹ کرنل ننداسینا گوٹابیا راجاپاکسے کا مختصر نام ہے اور گو گوٹا گو کے نعرے لگانے والے ان کا استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ان کا تعلق سری لنکا کے معروف سیاسی خاندان راجا پاکسے سے ہے۔2005ء میں ان کے بڑے بھائی مہندا راجا پاکسے صدر بن گئے تو گوٹابیا کو سیکرٹری دفاع لگا دیا گیا۔ اس کے بعد راجا پاکسے خاندان کا طلسماتی عروج شروع ہوگیا۔ 76سالہ مہندا راجا پاکسے دراصل اس سیاسی خاندان کے سربراہ ہیں۔ سری لنکا کے دستور کے مطابق صدر طاقتور ترین عہدہ ہے مگر دو بار صدر بننے کے بعد کوئی تیسری بار صدر نہیں بن سکتا اس لیے مہندا راجا پاکسے نے وزرات عظمیٰ پر قناعت کرلی۔ انہوں نے سری لنکا میں اپنے خاندان کو اس طرح ترقی دی کہ اگر اسے شاہی خاندان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس وقت ان کے بھائی گوٹابیا راجا پاکسے سری لنکا کے صدر ہیں، ایک بیٹے نمل نوجوانوں کے وزیر ہیں، دوسرے صاحبزادے ان کے چیف آف سٹاف ہیں، چند دن پہلے تک ایک بھائی باسل راجا پاکسے وزیر خزانہ تھے، سب سے بڑے بھائی چمل راجا پاکسے پہلے پارلیمنٹ کے سپیکر رہے اس کے بعد کئی وزارتیں ان کے پاس رہیں، چمل کے بیٹے سشیندرا نو میں سے ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہوگئے۔ ان کے علاوہ ان گنت کزن مختلف ملکوں میں سفیر ہیں اور سری لنکا کی تقریبا ًسبھی کارپوریشنوں، بینکوں اور ہوائی کمپنیوں کے سربراہان بھی راجا پاکسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 
مطلب اگر پاکستان کے حالات بھی ایسے رہے، ناتجربہ کار لوگ بڑی سیٹوں پر پہنچ کر انجوائے کرتے رہے تو وطن عزیز کو سری لنکا بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور رہی بات اگلے بجٹ کی تو خدارا حکومت بجٹ میں چاہے عوام کو ریلیف نہ دے مگر ناجائز منافع خوروں، ملاوٹ مافیا اور بھتہ خوروں سے عوام کی جان ضرور چھڑا دے یہی موجودہ حکومت کا عوام پر احسان عظیم ہوگا ورنہ یہ حکومت جائے گی تو نئی آئے گی اور پھر وہ نئے سرے سے قرضے لے کر پھر چلتی بنے گی اور عوام ایک بار پھر منہ تکتے رہ جائیں گے!!!

مصنف کے بارے میں