غلامی کہاں سے کہاں تک

غلامی کہاں سے کہاں تک

غلامی یا آزادی ایک ایسا معمہ ہے جس کے حل کے لیے بہت گہری سوچ اور پیہم عمل کی ضرورت ہے۔ ہم کیا آزاد ہیں؟ اگر نہیں تو پھر غلام ہیں اور کس کے غلام ہیں؟ کیا امریکہ، یورپ اور گورے کے غلام ہیں؟ نہیں، بالکل نہیں۔ ہم آزادی سے دراصل واقف نہیں ہیں۔ میرے ایک دوست ہیں سہیل انور خان، فن لینڈ میں ہوتے ہیں، بتا رہے تھے کہ وہاں ہر بچہ 5/6 سال کی عمر تک سکول میں صرف 4 گھنٹے روزانہ 5 دن کے لیے جاتا ہے۔ اس کے سامنے اس کے ذہن، اس کی فطرت کے مطابق سیکھنے، بنانے کو چیزیں رکھی جاتی ہیں۔ ایک ہفتے میں 20 گھنٹے کی سکولنگ ہے۔ بچہ سوال کرتا ہے کوئی ٹیچر استاد اکتاتا نہیں۔ بچہ سو سوال کرے سو کا جواب ملتا ہے۔ وہاں پڑھائی تعلیم کی کوئی فیس نہیں، ٹیچرز کی ضروریات حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جب بچہ 6/7 سال کی عمر پار کرتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے الگ الگ انسان بن چکے ہوتے ہیں جیسا ذہن، قابلیت، رجحان ہو ویسی تعلیم کے کھلے دروازے اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ بے شک سویڈن اور پاکستان کا موازنہ بذات کود ایک خود فریبی سی ہے۔ لیکن غلامی ہماری فطرت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام غلاموں کی بدترین نسلیں تیار کر رہا ہے جس میں تعلیم پانے والے زیادہ سے زیادہ بھی غلام ہی بننا چاہتے ہیں۔ کوئی سی ایس پی آفیسر کی صورت اور کوئی کسی اور صورت میں، مجھے یاد ہے جن سکولوں میں میرے دور کے لوگ پڑھتے رہے ہیں ان میں اساتذہ کے ہاتھ میں ڈنڈا شخصیت کا لازمی جزو تھا۔ جو سکھاتا تھا، بلکہ محاورہ عام تھا کہ ’’ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘ یعنی بگڑے بچے کا ڈنڈا پیر ہے۔ میں نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں کان پکڑ کر پاؤں میں قاعدہ رکھ کر روتے بچے کو پیٹھ پر ڈنڈے مار مار کر ٹیچر کو پڑھاتے دیکھا۔ ہماری مساجد میں یہ مناظر عام ہوتے تھے۔
ایک نفسیاتی معاملہ ہے کہ جس منظر میں جو عمل یا واقعہ ہو وہ اسی طور ہمیشہ انسان کی نظروں میں موجود رہتا ہے۔ کسی کی کیا میں اپنی بات کرتا ہوں کہ مجھے میرے پاء جی اعظم صاحب کی نو بج کر 5 منٹ پر امریکہ سے ایک دوست نے فون پر وصال کی خبر دی اگر میں اس وقت گھر پر ہوں اور گھڑی دیکھ لوں تو ڈپریشن ہوتی ہے، میرا دن دکھی ترین گزرتا ہے۔ 4 سے 10 سالہ بچے کو ڈرکا شکار رکھا جائے تو پھر وہ غلامی اور خوف کا عادی بن جاتا ہے۔ ایک گورا کہتا ہے کہ میں نے 5 سے 7 سال کے بچے بچیوں کی جماعت کو وزٹ کیا تو ہر بچہ سوال پہ سوال کیے جاتا اور جب میں آٹھویں دسویں جماعت کے بچوں سے ملا تو ان میں سوالات نہ ہونے کے برابر تھے۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ انہیں علم حاصل ہو چکا تھا، وجہ یہ تھی کہ سوال کی جرأت ختم ہو چکی تھی۔ استاد کی روک ٹوک، مار دھاڑ، پھٹکار نے بچے کے اندر کا انسان غرق کر دیا تھا اب وہ کولہو کا بیل تھا۔ سکول آنا جانا اور سال بعد امتحان میں جو پڑھا اس کو اُگل دینا۔ فِن لینڈ میں سکول کا رزلٹ چیک 
نہیں کرتے۔ Creativity سو فیصد ہے۔ ہمارے ہاں 1100 میں سے 1100 نمبر لینے والے بچے بھی Creative نہیں ہیں۔ ایک دن میں نے اپنے ایک ہائی کورٹ کے جج دوست سے کہا کہ تم فلاں بندے کو ہائی کورٹ میں ملازم کرا دو۔ وہ کہنے لگے کہ اخبار اشتہار بھی ضروری ہے اور دیگر ملازمتوں میں کوشش ہوتی ہے کہ ملازمین کے بچوں کو ہی رکھا جائے۔ میں نے سوال کیا تا کہ انہیں آداب غلامی سکھانا نہ پڑیں۔ وہ بولے، ہاں بالکل یہی بات ہے۔ لیاقت علی خان قائد اعظم کے سیکرٹری سے کنفرم کر کے سوتے تھے کہ صاحب سونے چلے جائیں تو مجھے بتا دیں۔ مقصد ہوتا کہ کسی بھی وقت بلا سکتے ہیں۔ چلیں وہ تو ایک بڑے مقصد کی خاطر چاک و چوبند رہتے ہوں گے مگر آگے چل کر بھی ایسا ہی رہا۔ دراصل جو ڈسپلنڈ ادارے ہیں وہ سوال کر ہی نہیں سکتے۔ بس حکم ہی حکم ہے۔ مولوی یا ماسٹر سوال نہیں کرنے دیتا۔ بچہ جوان ہو جائے ماں باپ تو درکنار مامے پھوپھے چاچے کے سامنے سوال نہیں کر سکتا۔
سوال کرنا منع ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو ہمارے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے سامنے بات کرنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ میرا آج بالکل جی نہیں چاہتا کہ میں سیاست دانوں کا ذکر کروں لیکن دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی حالت ایسے ہی ہے۔ اے ڈی ایس پی گزر رہا ہو، سپاہی راستہ چھوڑ دیں گے، وہ دیکھے نہ دیکھے سلام کریں گے اور اگر جواب مل جائے تو ایسے جیسے بخشش ہو گئی۔ چپڑاسیوں اور چھوٹے ملازمین کی کالی اور سبز شیروانیاں، ٹوپیاں یونیفارم کا حصہ ہیں، گورے کی جگہ کالا صاحب سوٹ ٹائی میں ہے۔ سکول میں چھٹی کی درخواست میں تابع فرمان، Yours obedient servant سکھایا جاتا ہے، یہی روش سرکاری محکموں میں ہوتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں غلامی ہے، قومی اداروں، سرکاری اداروں میں غلامی ہے، پوری معاشرت میں غلامی ہے۔ یہ سکول سے شروع ہوتی ہے، مدرسہ سے شروع ہوتی ہے، لڑائی جھگڑے کے حل کے لیے بیٹھنے والی پنچایت سے شروع ہوتی ہے۔ کیا ہم کبھی آزادی حاصل کر پائیں گے۔ ہمارا تعلیمی نظام اتنا جابر تھا اور ہے کہ میرے دوست آغا سہیل دوسری تیسری جماعت میں پڑھتے تھے انہیں سکول میں کہا گیا کہ آپ گھر چلے جاؤ، آپ کی والدہ وفات پا گئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، بھائی جان! مجھے فوری طور پر ماں کے مرنے کا دکھ سکول سے چھٹی کی خوشی میں گم ہو گیا، پھر عمر بھر ماں کا غم ہے اور میں ہوں۔ ہمارے ہاں تو آئین میں بھی غلامی ہے اور صوابدیدی اختیارات میں کسی کو بھی بادشاہ بنا دیا جاتا ہے۔ ایک غلاماناں نظام ہے۔ ہم نے ایک نسل تیار کی ہے، نسلیں تیار کریں گے مگر معاشرہ نہیں جو مختلف قسم کی خوبیوں والے لوگوں پر مشتمل ہو۔ ہم موجد پیدا نہیں کر پائے غلام پیدا کیے۔ یہ واحد معاشرہ ہے جہاں ڈاکٹر بننے کے بعد سی ایس پی آفیسر بننے کو ترجیح دی جاتی ہے کہ غلام کے سرکل میں آ جائیں۔ کوئی ہمیں سلیوٹ مارے اور ہم کسی کو سلیوٹ ماریں۔ جب تک ہم ان پروٹوکول والوں، حکمرانوں، حکمران طبقوں جن کے گزرتے وقت ٹریفک روک دی جاتی ہے، ہمارا راستہ بدل دیا جاتا ہے، سوال نہیں کرتے، ہم کبھی آزاد نہیں ہو سکتے۔ ہم جب تک اپنا راستہ کھلوا نہیں سکتے ، آزاد نہیں ہو سکتے۔ جب تک منزلوں پر محیط عمارت کو مزدور دیکھ کر حیران ہونے کے بجائے فخر محسوس نہیں کرتا کہ یہ اس نے بنائی ہے، ہماری سوچ آزاد نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ہاں تعلیم پر عمل بھی اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ جبر، دھونس، کان پکڑا کر دی گئی ہے، ہم نفسیاتی مریض ہیں ہمیں تعلیم بھول جاتی ہے اور تشدد یاد رہتا ہے۔ جب تعلیم کے ساتھ تشدد یاد آئے تو کون عمل کرے گا اور کون سوال کرے گا۔ جس دن سرکاری نوکری یا افسری آخری خواہش رہ جائے گی میں سمجھوں گا قوم آزاد ہو گئی، جس دن سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت آ گئی میں سمجھوں گا جمہوریت آ گئی۔

مصنف کے بارے میں