حکمرانوں سے حکمت کی کچھ باتیں

حکمرانوں سے حکمت کی کچھ باتیں

مولانا عبدالماجد دریا بادی نے ’’تحفۂ خسروی ‘‘ کے دیباچے میں اس امر پر بڑے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں کے فلسفۂ حکومت اور نظامِ سیاست پر زمانۂ حال کے کسی محقق نے توجہ نہیں کی، کی بھی تو میرے خیال میں اس کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر ہمارے پرانے علما اور دانشوروں نے متعدد قابل قدر کتابیں لکھیں جن میں بادشاہوں اور حاکموں کو بڑی حکمت سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ حکومت پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بستر ہے۔ ایک با ضمیر اور خداترس حاکم کے لیے حکومت ایک ایسے لباس کی مانند ہے جس میں چُھپا کانٹا اس کے جسم و جان میں مسلسل خلش پیدا کرتا رہتا ہے۔ خلفائے راشدین میں سے صرف حضرت عمر ؓ ہی کے نظام حکومت کو لے لیں جس کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے علامہ شبلی کی ’’الفاروق‘‘ کا مطالعہ کفایت کرے گا۔ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ اُس عظیم خلیفہ نے کس حکمت سے اور کن کن جہتوں میں نظام حکومت کا ہمہ گیر انداز میں نفاذ کرکے جدید اصول سیاست و حکومت کی بنیادیں فراہم کر دی تھیں۔ جو شخص کسی صوبے کا گورنر مقرر کیا جاتا تھا اس کو ایک مصدقہ فرمان عطا کیا جاتا تھا۔ گورنر جس مقام پر جاتا تھا تمام لوگوں کو جمع کر کے یہ فرمان پڑھتا تھا تاکہ لوگ اس کے اختیارات اور فرائض سے اچھی طرح آگاہ ہو جائیں اور اختیارات سے تجاوز کی صورت میں اس کا احتساب کر سکیں۔ جب عامل کا تقرر ہو جاتا تھا تو بغیر کسی تاخیر کے اس کے مال و اسباب کی ایک مفصل فہرست تیار ہو کر محفوظ کر لی جاتی تھی اور اگر اس کے مال و اسباب میں اس دوران غیر معمولی اضافہ ہو جاتا تھا تو اس کا احتساب کیا جاتا تھا۔ کیاآج ہمارا کوئی گورنر ، وزیراعلیٰ یا کوئی حکومتی نمائندہ ایسے احتساب کا متحمل ہو سکتا ہے؟ قولِ عمرؓ تھا : اَقلِل مِنَ الدّنیا تَعِشْ حُرّاً (دنیا سے تھوڑا لو تاکہ مردِ حُر کی سی زندگی گزار سکو)۔ جس سال عرب میں قحط پڑا، ان کی طبیعت بڑی مضطرب رہی۔ اُس زمانے میں گوشت، مچھلی، گھی ہر لذیذ چیز اپنے اوپر ممنوع کر لی۔ بڑے خشوع و خضوع سے دعا فرماتے تھے : اے اللہ! محمدؐ کی امت کو میری شامتِ اعمال سے تباہ نہ کرنا!
قارئین کرام نظام الملک طوسی کے نام سے ضرور واقف ہوں گے ۔ ان کی مشہور تصنیف ’’سیاست نامہ‘‘ ان حکیمانہ باتوں اور نصیحتوں کا مجموعہ ہے جسے بادشاہِ وقت ملک شاہ کے حکم سے انھوں نے ترتیب دیا تھا۔ تقریباً ایک ہزار برس پہلے لکھی گئی یہ کتاب آج بھی نہایت مفید ہے اور حاکمانِ وقت کے لیے ایک بے مثل نظام نامے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بادشاہ کے لیے چارہ نہیں کہ ہفتے میں دوبار مظلوموں کی فریاد سننے کے لیے کھلی کچہری لگائے۔ رعایا کی باتیں براہِ راست اپنے کانوں سے سنے اور ظالموں کا مؤاخذہ کرے۔ اس عمل کو مشتہر بھی کیا جائے تاکہ ظالموں کو کان ہو جائیںکہ وہ ظلم وستم سے باز رہیں ورنہ سزا کے لیے تیار رہیں۔ اسی ’’سیاست نامہ‘‘ میں ایک جگہ سامانی بادشاہ اسماعیل بن احمد کی رعایا پروری کے ذکر میں لکھا ہے کہ شاہِ عادل کی عادت تھی کہ جس روز شدید شردی کا موسم اور سخت برفباری کا عالم ہوتا ، وہ تنہا ، گھوڑے پر سوار ہوتا اور کھلی جگہ پر نکل آتا اور نمازِ ظہر تک پشتِ اسپ پر سوار رہتا اور کہا کرتا : کیا خبر کوئی مظلوم ہمارے دربار میں آئے اور اس کے پاس نان و نمک اور رہنے کا ٹھکانا نہ ہو اور وہ برف باری کے باعث ہم تک نہ پہنچ پائے۔ لہٰذا جب اسے معلوم ہو گا کہ ہم یہاں موجود ہیں تو وہ بلا دقّت یہاں پہنچ کر اپنا مقصد حاصل کر لے گا اور اپنے گھر لوٹ جائے گا۔
قدیم ایرانی بادشاہ اردشیر بابک نے اپنے 
دربار کو حکمت و دانش کا مرکز بنا لیا تھا۔ ایک دفعہ اس نے اپنے بیٹے کو قیمتی لباس پہنے دیکھا تو کہا : اے بیٹے! بادشاہوں اور ان کی اولادوں کو ایسا لباس پہننا چاہیے کہ کسی خزانے میں نہ ملے اور کوئی اسے پہن نہ سکے یہ لباس جو تو نے پہنا ہے ، آسانی سے مل جاتا ہے اور ہر کوئی اسے پہن سکتا ہے۔ شہزادے نے پوچھا تو پھر اصل لباس کیا ہے۔ کہا: اصل لباس وہ ہے جس کا تانا اچھی عادات اور نیک چلن سے اور بانا حلیمی اور ملائم طبعی سے گندھا ہوا  ہو۔ 
وطن عزیز کے موجودہ سیاسی آشوب اور تبدیلی کا تجزیہ کار جو بھی تجزیہ کریں مجھے تو اخلاقِ محسنی کی وہ عبارت یاد آتی ہے جس کا جوہر اس جملے میں سمٹ آیا ہے: سلطنت بہ دعا گوئیِ رعیت و رضا جوئیِ سپاہ انتظام می یابد (سلطنت یا حکومت رعایا کی دعاؤں اور فوج کی رضاجوئی سے تنظیم پاتی ہے!!)۔واضح رہے کہ سپاہ کی رضا جوئی سے مراد اس کی خوشامد نہیں، اس کی فلاح و صلاح کا شعور اور اس کی دلجوئی ہے۔ 
حکومت اور حاکمیت عیش، شادمانی اور احساسِ تفاخر سے نہیں، حلم، عفو اور چشم پوشی سے نمو پاتی ہے۔ گلستان کے پہلے باب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا غصّے سے لال پیلا باپ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ مجھے فلاں سپاہی زادے نے ماں کی گالی دی ہے۔ خلیفہ نے اپنے مشیروں سے پوچھا : ایسے شخص کو کیا سزا دینی چاہیے ۔ ایک نے کہا: ایسے بیہودہ شخص کو قتل کر دینا چاہیے۔ دوسرا بولا: ایسے شخص کی زبان کاٹ دینی چاہیے ۔ تیسرا گویا ہوا: ایسے شخص کو جرمانہ کرنا اور جلاوطن کر دینا بہتر ہو گا۔ ہارون اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر بولا: بہتر یہ ہے کہ تُو اسے معاف کر دے اور اگر تیرے لیے یہ ممکن نہیں تو تُو بھی اسے جواباً گالی دے لے مگر دیکھنا حد سے نہ بڑھنا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حاکم وقت حلم اور حوصلہ مندی کے بجائے اپنا زیادہ وقت خود ہی گالیوں کی جھاڑ باندھنے میں گزار نے لگے اور ان کا ہدف اس کے سیاسی حریف ہوں تو؟
کوفی محدث اور زاہد سفیان ثوری کا قول ہے کہ بہترین حاکم وہ ہے جو اہل علم کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور حکیم لقمٰن کا ارشاد ہے کہ لوگوںکا بہترین دوست علم ہے۔ علم خزانے سے بہتر ہے کیونکہ خزانے کی حفاظت تجھے کرنا پڑتی ہے جبکہ علم خود تیری حفاظت کرتا ہے۔ کاش ان ارشادات کی روشنی میں حاکمانِ وقت سچے، دردمند اور علم و بصیرت میں پیرے ہوئے افراد پر مشتمل سپاہِ دانش (تھنک ٹینک) ترتیب دیں جو ان کی ان رستوں پر گامزن ہونے میں معاون ہو جو سعادت اور سربلندی کی منزل کو جاتے ہوں۔ امام غزالیؒ نے کس دلسوزی کے عالم میں کہا تھا کہ حاکم وقت کو ہمیشہ دین دار علما کے دیدار کے لیے بے تاب ہونا چاہیے اور ان کے نصائح پر کان دھرنے کے لیے بے چین۔ اسے لالچی اور خوشامدی علما سے بچنا چاہیے جو مکر اور تملق سے بادشاہ سے زر اور عہدہ طلبی کے متمنی ہوں ۔ بلخ کے مشہور صوفی شقیق بلخی ہارون الرشید سے ملے۔ ہارون نے ان سے پوچھا : تو ہی شقیقِ زاہد ہے؟ فرمایا میں شقیق تو ہوں زاہد نہیں۔ہارون نے کہا: مجھے نصیحت کر۔ فرمایا: اللہ نے تجھے صدیقؓ کی جگہ متعین کیا ہے اور تجھ سے صدق چاہتا ہے جیسا کہ صدیقؓ سے اور تجھے فاروقؓ کی جگہ رکھا ہے اور تجھ سے حق و باطل میں فرق کا متقاضی ہے جیسا کہ فاروقؓ سے اور تجھے عثمان ذوالنورینؓ کی جگہ دی ہے اور تجھ سے شرم اور کرم چاہتا ہے جیسا کہ اس ؓ سے اور تجھے علیِ مرتضیٰؓ کی جگہ رکھا ہے اور تجھ سے علم اور عدل کا خواہش مند ہے جیسا کہ اسؓ سے۔
مسلم ذخائرِ ادب میں اور بھی کئی قابلِ قدر اوراق ہیں جو ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ مدت ہوئی میری نظر سے ’’تحفۃ الملوک‘‘ نامی ایک چند ورقی رسالہ گزرا تھا۔ آدابِ کشور داری کے موضوع پر یہ رسالہ ساتویں صدی ہجری میں لکھا گیا۔ لکھنے والے کا نام کسی کو معلوم نہیں۔ اس میںنہایت ایجاز کے ساتھ حاکموں کے لیے عمدہ نصیحتیں رقم کی گئی ہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے: چار چیزیں چار چیزوں کے بغیر ممکن نہیں۔ بادشاہی ممکن نہیں عدل کے بغیر، محبت ممکن نہیں انکسار کے بغیر، دشمن کا قلع قمع ممکن نہیں دوستی کے بغیر، مراد کا حاصل کرنا ممکن نہیں صبر کے بغیر۔ اور ہاں ’’تحفۃ الملوک‘‘ کے نام سے مماثل ایک اور قابل قدر مفصل تصنیف ’’ذخیرۃ الملوک‘‘ بھی تو ہے امیر کبیر سید علی ہمدانیؒ کی ، وہی سید علی ہمدانی جنھیں اقبال نے ’’سید السادات‘‘ لکھا ہے۔ اس کتاب کا پانچواں باب سر تا سر حکومت ، امارت ، رعایا کے حقوق ، شرائط حکومت اور عدل و احسان کے واجب ہونے جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں قانون کی حکمرانی پر بھی بڑا زور دیا گیا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر بھی۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: جس بندے کو اللہ کسی رعیت پر حاکم بناتا ہے اور وہ اس کو اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم نہیں دیتا اور ان کی اصلاح کی کوشش نہیں کرتا وہ بہشت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔ حاکم پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ شہوات اور شبہات کا ارتکاب کر کے لوگوں کو گناہوںپر دلیر نہ کرے۔۔۔ اگر وہ خدانخواستہ گناہ کا مرتکب ہو تو اس کو مخفی رکھے کیونکہ عام لوگ نیکی اور بدی میں حاکم کے پیرو ہوتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس میں بھوکے اور بیقرار اور طرح طرح کی حیلہ گری کرنے والے کیا کبھی ان باتوں پر غور کریں گے کہ سچی حکمرانی کا رستہ کانٹوں سے پٹا ہوا ہے اور اس پر قدم زنی پاؤںکو لہو لہو کیے بغیر ممکن نہیں ۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!

مصنف کے بارے میں