خواتین ہراسانی ، خطابت سے آگے بڑھیں

خواتین ہراسانی ، خطابت سے آگے بڑھیں

چودہ اگست پر ہماری نوجوان نسل نے جو جشنِ آزادی کے نام پر جو غُل غپاڑہ برپا رکھا ، ابھی اسی کی گونج کانوں میں ہی تھی کہ 18 اگست کو ایک ٹِک ٹاکر نے چار روز بعد یہ انکشاف کیا کہ چودہ اگست کو اُن کے ساتھ جنسی ہراسگی کا سانحہ اُس وقت پیش آیا جب وہ مینارِ پاکستان پر اپنے تئیں ایک معروف شخصیت کے طور پر جشنِ آزادی منانے پہنچیں۔اسی طرح ایک اور ویڈیو بھی خبروں میںرہی کہ رکشے میں بیٹھی خواتین کو بھی ہراساں کیا گیا اور وہاں موجود اس قبیحہ فعل کو روکنے کے بجائے منظر موبائل کیمرے میں فلم بند کرتے رہے اور ایمان کے اس ادنیٰ ترین درجے سے بھی گِر گئے جہاں برائی کو دل سے ناگوار سمجھا جاتا ہے۔چار روز قبل راولپنڈی میں ایک مدرسے میںطالبہ کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ 
ان واقعات کے بعد حکومتی ایوانوں سے وہی پرانے دعوے کیے جارہے ہیں کہ مجرموں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ کوئی رعایت نہیں برتی جائے اور قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی۔ ایک وزیر فرماتے ہیں کہ رکشے میں بیٹھی خواتین کو ہراساں کرنے والے کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس بتاتی ہے کہ مجرم کو نہیں اس واقعے کی ویڈیو بنانے والے کو گرفتار کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ایک تقریب میں خطاب کے دوران نہایت جذباتی انداز میں غریب شرکاء سے یہ پوچھتی رہیں کہ مینارِ پاکستان پر ہونے والے واقعے پر انتظامیہ کہاں تھی؟  بہتر تو یہ تھا کہ وہ تقریب کے سامعین کے بجائے یہ سوال ایک فون کا ل پر چیف سیکرٹری، آئی جی اور سب سے بڑھ کر وسیم اکرم پلس ،’’شیر شاہ سوری‘‘ وزیر اعلیٰ پنجاب سے پوچھ سکتی تھیں، صوبائی وزیر قانون سے پوچھ سکتی تھیں۔ ویسے ہمارے یہاں عجب رواج ہے کہ وزیر خارجہ ،  خارجہ پالیسی پر بات کرنے کے بجائے سیاسی مخالفین کو رگیدتا ہے۔ وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی داخلہ اور انتظامی امور پر رائے زنی کرتی ہیں ، وزیر داخلہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے وزیر اعظم کی تعریف میں رطب السان ہوا جاتا ہے اور سیاسی مخالفین پر طنزیہ جملے کسنے پر مامور نظر آتا ہے۔ وزیر اعظم کرکٹ اور شوکت خانم ہسپتال کے خُمار سے ہی نہیں نکلتے۔ رہی مرحوم اپوزیشن تواُسے اپنے ہی پیرہن کے چاک رفو کرنے سے فرصت نہیں ہے۔ 
ہمارے یہاں دانشوروں کا حال بھی ہے کہ کوئی حادثہ کوئی واقعہ رونما ہوجائے،بس پھر ایسے ایسے عنوانات باندھتے ہیں ، وہ وہ عبارتیں ان کے قلم سے نکلتی ہیں کہ مُملکتِ روما یاد آگئی جہاں اَدب اور خطابت جیسے مضامین کی اہمیت تھی مگر تاریخ، جغرافیہ اور سائنس کی تعلیم عام نہیں تھی۔ ہر قلم کار بزعم خود محمدحسین آزاد اور ابوالکلام آزاد کو مات دینے کے درپے ہے۔ پرنٹ میڈیا پر تو معاملہ  پھر بھی غنیمت رہتا ہے،،  مختلف ویب سائٹس پر جائیں تو لائک اور ریٹنگ کے حصول کے لیے بلاگرز کے عنوانات کی ’’ندرت‘‘ دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ لفاظی اور بقراطی کا ’’حسین امتزاج‘‘ ہے۔ حادثات اور واقعات پر نوحے، تاسف اور بے نتیجہ تجزیوں کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہم قوم کا اخلاقی معیار نہیں سنوار سکے ہیں۔ دو روز قبل جدیدیت اور حقوق نسواں کے علم برداروں اور این جی اوز کے بھی ڈیڑھ دو درجن افراد  نے مینار پاکستان پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور اُسی جوش اور ولولے کے ساتھ یہ احتجاج بھی کیا جس جوش کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ’’ جب لال لال لہرائے گا‘‘ کے نعرے کو بلند کیا تھا۔ قوی گمان ہے کہ اس احتجاج کا بھی وہی حال ہوگا جو لال لال لہرانے کا ہوا تھا۔ 
ایسے میں جب قوم کی ہر ایک ایک بیٹی کا باپ اور ماں اُن کے لئے پریشان اور فکر مند ہے، ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی واضح حکمت عملی کسی طبقے کی جانب سے سامنے نہیںآرہی ہے ۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ حکومت کو اس ضمن میں سزائوں کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک مئوقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انگریز کے بنائے ہوئے قانون کے بجائے سزائوں کے لیے سورہ مائدہ (۵) کی آیات 33-34، کو سامنے رکھیں۔ جیسا کہ گرامی قدر جاوید احمدصاحب غامدی بتاتے ہیں کہ مذکورہ آیات میں محاربہ اور فساد فی الارض کی جو سزائیں بیان ہوئی ہیں، وہ صرف ڈکیتی کے ساتھ خاص نہیں ہیں، بلکہ اُن سب مجرموں کے لیے ہیں جو قانون سے بغاوت کرکے لوگوں کی جان، مال،آبرو اور عقل و رائے کے خلاف برسرِ جنگ ہو جائیں۔ چنانچہ قتل، دہشت گردی، زنا، زنا بالجبر اور چوری ڈاکہ اور بدکاری کو پیشہ بنالیںیاکھلم کھلا اوباشی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ منشی، بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت کے لیے  خطرہ بن جائیں تو یہ سب فساد فی الارض کے مجرم ہوں گے، اور قرآن ہی ہمیں بتاتا ہے کہ موت کی سزاقتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں بھی نہیں دی جاسکتی ہے۔ 
دوسرا یہ کہ والدین کو گھروں میں، اساتذہ کو سکولوں اور مدارس میں، علما اور دانش وروں کو اپنے خطبات اور تحریروں میں یہ بتانا چاہئے کہ دین کس طرح رویوں میں شائستگی کا درس دیتا ہے۔لباس کے کیا آداب سکھاتا ہے، عوامی مقامات پر لباس اور رویوں کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے۔رہے وہ لوگ جو عام شہریوں کو اپنی شرارتوں کا نشانہ بناتے ہیں تو قرآن حکیم میں ان کا الگ سے ذکر بھی ہے اور دنیا ہی میں عبرتناک سزا کی وعید بھی۔ خورشید ندیم صاحب نے عمدہ نکتہ بیان کیا کہ ہمیں بھی یہ فرق سامنے رکھنا چاہیے کہ کسے سزا دینی ہے اور کسے نصیحت کر نی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا چاہیے کہ برائی سے محفوظ رہنے کے لیے اُنھیں کس قسم کے رویوں کو اختیار کرنا چاہیے ۔  
تیسرا یہ کہ خاص کر طالبات کے لیے سکول، کالج اور مدرسوں میں سیلف ڈیفنس اور خاص کر جنسی ہراسگی کے دوران اپنی حفاظت  کے طریقوں کی تربیت کا آغاز ہنگامی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے۔  
چوتھا یہ کہ معاشرے میں نکاح کو آسان بنانے کے لیے راہ ہموار کی جانی چاہیے اور عزت کے جو معیار اسلام نے ہمیں بتائے ہیں انھی کو سامنے رکھا جانا چاہیے ناکہ دنیاوی نمائش کے لوازمات کو۔ 
بہرحال اس ضمن میں سب سے زیادہ ذمہ داری پارلیمنٹ اور حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے مئوثر حکمت عملی اختیار کرے۔