تلاش گم شدہ

تلاش گم شدہ

دوستو،کسی چیز کا ناملنا اور کسی چیز کوکھو دینا، دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا کھاتہ لکھتے ہوئے، ہمیں ان چیزوں کا حساب رکھنا پڑتا ہے جو ہم نے کھو دیں نہ کہ ان کا جو ہمیں کبھی ملی ہی نہیں تھیں۔آزادی ہمیں مل گئی، کیا ہم اس کا تحفظ کرسکے؟؟جو پاکستان قائد اعظم نے ہمیں دیا ہم اس کی بھی حفاظت نہ کرسکے۔۔تلاش گم شدہ بظاہر تو ایک عام سا فقرہ یا جملہ ہے۔۔ لیکن اس کے معنی تلاشے جائیں تو ہم انتہائی افسوس کے ساتھ آپ کو بتانا چاہیں گے کہ ۔معاشرے سے خلوص گم ہوگیا ہے، اس کی عمر کئی سو سال تھی لیکن مطلب پرستی کی وجہ سے کافی بیمار ہوگیا ہے۔ دل ،دماغ اور ضمیر میں موجود خودغرضی سے ان بن ہونے کے باعث بیماری کی حالت میں کہیں ناراض ہوکر چلاگیا۔۔گمان ہے کہ انسانوں کی بستی (جہاں جنگل کا قانون ہے)نے اسے نگل لیا ہے، اس کا لاڈلا بھائی اخوت اور بہن حب الوطنی سخت پریشان ہیں۔اس کے دوست محبت اور مہربانی بھی اس کی تلاش میں گھروں سے نکلے ہوئے ہیں، اس کی عدم موجودگی میں اس کے دشمن تعصب اور ہوس نے مل کر تباہی مچارکھی ہے، اس کی جڑواں بہن شرافت کا اسی غم میں انتقال ہوچکا ہے، شرافت کے غم میں حیا بھی چل بسی ہے۔۔بڑابھائی انصاف جدائی میں رو،روکر اندھاہوچکا ہے، والدمحترم معاشرہ شدید ذہنی اذیت کا شکار ہے،والدہ انسانیت شدید بیمار ہے،آخری بار اپنے جگرگوشہ خلوص کو دیکھنا چاہتی ہے، جس کو ملے انسانوں کی بستی میں پہنچادے ورنہ انسانیت بھی دم توڑ دے گی۔۔
زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ اردو کے پیپر میں لفظ ”شدہ“ سے چار لاحقے لکھنے کو کہا گیا۔ ہم نے جواب میں لکھا ”شادی شدہ، گمشدہ، ختم شدہ، تباہ شدہ“اگلے روز استادِ محترم نے پیپرز چیک کر کے واپس دیے توہمیں لاحقوں والے سوال میں چار میں سے آٹھ نمبر ملے تھے۔ استادمحترم سے جب فالتو نمبروں کے متعلق پوچھا تو ہنس کر کہنے لگے۔۔پتر! چار نمبر صحیح جواب کے ہیں اور چار صحیح ترتیب کے۔۔گم شدہ کے حوالے سے یاد آیا، ایک صاحب جن کی اہلیہ لاپتہ تھیں، اخبار میں اشتہار دیا کہ۔۔میری بیوی ایک ہفتے سے لاپتہ ہے، پتہ بتانے والے کو پیشگی مطلع کیاجاتا ہے کہ اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں۔۔ اشتہار کی ایک بہت ہی پرانی اور گھسی پٹی قسم ہے ”تلاش گمشدہ کا 
اشتہار“آپ روزانہ ٹی وی پر نہیں بلکہ اخبارات میں ملا حظہ فرماتے ہیں اس کے علاوہ ریڈیو بھی حسب توفیق یہ خدمت انجام دے لیتا ہے۔تلاش گمشدہ کے اشتہار بھی مختلف اقسام کے ہوتے ہیں،کسی کا بچہ گم ہوگیا ہے اور کسی کے ضروری کاغذات،کسی کا زیور،کسی کا پالتو جانور۔۔اسی تلاش گمشدہ کے متعلق ایک گمشدہ لطیفہ بغیر تلاش کئے یاد آگیا ہے تو کیوں نہ آپ کو بھی سناتے چلیں، لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک محترمہ نے ایک اخبار کے دفتر ٹیلی فون کیا اور اپنے مخاطب سے کہا۔ میں نے آپ کے اخبار میں اپنے گمشدہ کتے کو تلاش کرنے والے کیلئے انعامی رقم کا اشتہار دیا تھا،دفتر کو اسکے بارے میں کوئی اطلاع تو نہیں ملی۔؟ دوسری جانب سے جواب ملا۔۔ جناب! میں تو معمولی چپراسی ہوں مجھے کچھ معلوم نہیں۔۔ محترمہ نے ذرا جل کر کہا ۔۔ کسی ذمہ دار شخص سے بات کرا دو، آخرایڈیٹر صاحب اور رپورٹر حضرات کہاں غائب ہیں؟۔۔ جواب ملا کہ۔۔ سب کے سب کتے کی تلاش میں دفتر سے باہر جاچکے ہیں۔۔!آپ روزانہ ٹی وی پر طرح طرح کے اشتہار دیکھتے رہتے ہیں اور بعض اشتہارات سے تو آپ بے حد بے زار بھی ہیں۔مثال کے طور پرآپ کے پسندیدہ ڈرامے یا فلم کے دوران پیش ہونے والا ہر اشتہار آ پ کے لیے کوفت کا باعث ہوتا ہے۔آپ نے پی ٹی وی پر ایک بوٹ پالش کا اشتہار ضروردیکھاہوگا اس اشتہار میں آپ نے بارہا دیکھا ہوگا کہ ایک بہت بڑے جوتے میں سے بچے پیدا ہو رہے ہیں،جی ہاں! بچے اور وہ بھی نو نہال ِ، خیر اتنا بڑا جو تا ہونا اور جوتے میں سے بچے پیدا ہونا۔ ٹیسٹ ٹیو ب بے بی کی پیدائش کے بعد اب کوئی حیرت کی بات نہیں ہے یہ سائنسی دور ہے جو کچھ بھی ہو کم ہی ہے۔ اس اشتہار سے یہ بتانا مقصود تھاکہ اشتہار میں دکھائی جانے والی پالش کی وجہ سے جوتے کی چمک میں چار چھ چا ند لگ جاتے ہیں۔۔نوٹ: یہاں بوٹ پالش کو بوٹ پالش ہی سمجھا جائے،کیوں کہ غیرسیاسی گفتگو ہورہی ہے۔۔
ایک خاتون نے پولیس میں اپنے شوہر کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ برسبیل گفتگو تھانیدار صاحب نے دریافت کیا۔۔اگر ہماری رسائی آپ کے شوہر تک ہو جائے تو ان کے لیے آپ کا پہلا پیغام کیا ہو گا! ۔۔ خاتون نے برجستہ جواب دیا۔۔ ”بس اتنا کہیں کہ امی جان یعنی ان کی خوش دامن نے ہمارے گھر آنے کا اپنا ارادہ منسوخ کر دیا ہے۔“۔۔گمشدگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو جدید دور میں ڈاک خانوں کی اہمیت بھی ختم ہوچکی، اب خطوط، عید کارڈز،پوسٹ کارڈز، تار بھیجنے کی روایات دم توڑ چکی ہیں، ورنہ ایک زمانہ تھا کہ خط و کتابت بہترین مشغلہ ہوتا تھا، امتحان میں ایک سوال خط لکھنے سے متعلق لازمی آتا تھا۔۔ پرانے زمانے کا واقعہ ہے۔۔مسز قاسم نے مسز جلیل کو بتایا۔۔۔لوگ اکثر ذکر کرتے تھے کہ ڈاک کے محکمے میں بڑی خرابیاں ہیں۔اب مجھے بھی یقین آگیا ہے کہ ڈاک کے محکمے کے لوگ بڑی بے پروائی سے کام کرتے ہیں۔۔مسز جلیل نے اپنی سہیلی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا،،ہاں،یہ بات تو ہے۔۔۔مسز قاسم سے اتفاق کرنے کے بعدمسز جلیل نے پوچھا۔۔تمھیں ان لوگوں کی بے پروائی کا تجربہ کیسے ہوا؟۔۔مسز قاسم بتانے لگیں۔۔میرے میاں کاروبار کے سلسلے میں لاہور گئے ہیں۔انہوں نے وہاں سے مجھے خط لکھا ہے۔۔لیکن پوسٹ آفس والوں کی بے پروائی دیکھو۔۔۔انہوں نے اس پر حیدر آباد کی مہر لگائی ہوئی ہے۔۔۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جس رکشہ یا ٹیکسی میں آپ سفر کررہے ہوں، اس میں سامان بھول جائیں تو وہ رکشہ یا ٹیکسی بھی اچانک گمشدہ ہوجاتی ہے۔ایک بندہ بہاولپور سے چھوٹا سا کارٹن اٹھائے ہوئے ملتان جانے کے لئے ٹیکسی میں سوار ہوا۔ راستے میں اس نے جیب سے موبائل نکالا اور دوست کو کال ملا کر بات کرتے ہوئے کہا۔۔سارا سونا 50 لاکھ میں بکا ہے۔ اور میں پیسے لیکر جلد ہی واپس پہنچ رہا ہوں۔دوسری طرف سے کچھ سننے کے بعد مزید جواب دیا کہ۔۔ نہیں نہیں، پیسے میں نے ایک ڈبے میں ڈال کر رکھے ہوئے ہیں، کسی کو شک نہیں پڑے گا اور خیر ہوگی۔۔ملتان پہنچ کر اس نے ٹیکسی والے سے، ایک دکان پر یہ کہہ کر رکنے کو کہا کہ، ذرا اپنے موبائل میں بیلنس ڈلوا لوں۔ تم رکو، ایک منٹ میں ابھی آیا۔۔ٹیکسی والا جو اس بندے کے مکالمے کو سن کر گنگ ہوا بیٹھا تھا اس کے اتر کر دکان میں داخل ہوتے ہی ٹیکسی بھگا کر رفو چکر ہو گیا۔۔اس بندے نے دکان سے پانی کی ایک بوتل خریدی، دکاندار کو پیسے دیتے ہوئے پوچھا۔۔ بھائی آپ کے پاس کوئی چھوٹا خالی کارٹن ہے کیا؟کل میں نے بہاولپور واپس بھی جانا!
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔فلموں کے پرانے سین بھی گمشدہ ہوگئے۔۔پرانی فلموں میں ہیرو کا ہیروئین کو لکھا ہوا خط کسی وڈیو کال سے کم نہیں ہوتا تھا، کیوں کہ ہیروئین جیسے ہی خط کھولتی تھی،لکھنے والے کی خط میں تصویر بھی نظر آتی تھی اور وہ خود ہی سناتا بھی تھا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں