سیلاب: اہل خیر کی ذمہ داری !

سیلاب: اہل خیر کی ذمہ داری !

اللہ پاک ہمارے ملک پر رحم فرمائے۔ آج کل اس کے مختلف صوبے اور علاقے سیلاب کی زد میں ہیں۔ مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں پوری شدت کیساتھ جاری ہیں۔اطلاعات ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس قدرتی آفت کی سنگینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کل کے ا خبارات میں کچھ اعداد و شمارنگاہوں سے گزرے۔ انہیں پڑھ کر دل بے حد دکھی ہو گیا۔ ان اعداد و شمار کے مطابق بارش اور سیلاب کے باعث کم و بیش ایک کروڑ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ سینکڑوں دیہات بہہ گئے ہیں۔ 326 معصوم بچوں سمیت 903 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ایک لاکھ 25 ہزار گھر زمیں بوس ہو گئے ہیں۔ کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں ۔کئی ہزار کلومیٹر سڑکیں اور انفراسٹرکچر بھی شکست و ریخت کا شکار ہو گیا ہے۔ کہیں پل گر گئے ہیں۔ کہیں شاہراہیں بند ہیں۔ کہیں ائیر پورٹ اور ٹرینیں معطل ہیں ۔ اس آفت کا مقابلہ کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں متحرک ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے قائم سرکاری ادارے بھی امدادی کاروائیوں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ فوج بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ کچھ دینی اور رفاعی ادارے بھی متاثرین کی مدد کیلئے متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں۔ 
مختلف حکومتوں، اداروں اور تنظیموں کی کاوشوں کے باوجود تمام متاثرین تک پہنچنا اور ان کی امداد یقینی بنانا نہایت مشکل کام ہے۔ تمام تر سرگرمیوںکے باوجود بیشتر متاثرین کھلے آسمان تلے دن اور رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ بہت سوں تک خوراک کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ علاج معالجے کی سہولےات بھی بیشتر متاثرین کی پہنچ سے باہر ہیں۔ بلاشبہ اتنی بڑی آفت کا تن تنہا مقابلہ کرنا حکومتوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسی طرح ادارے اور تنظیمیں بھی محدود انفراسٹرکچر کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ یقینا حکومت کے مددگار بن کر حکومت کا کام آسان کر سکتے ہیں۔ اس امداد باہمی کے باوجود حکومتیں ، ادارے اور تنظیمیں مل کر تمام متاثرین کی مدد سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسی آفات کا مقابلہ کرنا ، لوگوں کو مرنے سے بچانااور تمام متاثرین کی مدد کو پہنچنا تقریبا ناممکن کام ہے۔ اس مقصد کیلئے معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اہل خیر کی مدد بھی درکار ہوتی ہے۔پاکستانیوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ دنیا میں جو قومیں سب سے زیادہ خیرات اور عطیات کرتی ہیں، پاکستانی قوم ان میں سرفہرست ہے۔ 2005 میں مظفر آباد میں آنے والا زلزلہ ہم سب کو یاد ہے۔ اس زلزلے نے اس قدر تباہی پھیلائی تھی کہ خدا کی پناہ۔ برسوں گزر جانے کے باوجود زلزلے کے اثرات اس علاقے اور متاثرین کی زندگیوں میں موجود ہیں۔2005 کے زلزلے میں پاکستانیوں کا مدد کا جذبہ دیدنی تھا۔ سارے ملک سے پاکستانیوںنے مظفر آباد کا رخ کیا۔گھر بیٹھے عوام نے بھی د ل کھول کر کشمیری بہن بھائیوں کی مدد کی۔ بستر، اشیائے خورد و نوش ، خیمے، کپڑے، برتن، غرض جس کے ہاتھ جو کچھ لگا وہ مظفر آباد زلزلے کے متاثرین کے لئے بھیج دیا۔ اس وقت   ا لیکڑانک میڈیا کا کردار بھی شاندار تھا۔ ٹیلی ویژن چینلوں نے گھنٹوں میراتھون ٹرانسمیشن کر کے پاکستانی عوام کو زلزلہ متاثرین کی امداد کی طرف راغب کیا۔ 
 بارش اور سیلاب کی موجودہ صورتحال میں بھی عوام الناس امداد ی کاموں میں مصروف ہیں۔ تاہم ان کے جذبے میں وہ شدت دکھائی نہیں دیتی جو ان حالات کی متقاضی ہے۔ سچ یہ ہے کہ عوام امدادی سرگرمیوں سے بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی سیاسی کھیل تماشوں میں الجھا ہوا ہے۔ عوام کو میڈیا کی جانب سے ترغیب اور تحریک ملتی تو وہ یقینا امدادی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالتے۔ افسوس ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ 
 نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل سیاست کو سیاست سے فرصت نہیں۔ عمران خان مسلسل جلسے کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما تواتر سے سیاسی بیانات داغنے اور پریس کانفرنسیں کرنے میں مصروف ہیں۔ کسی جماعت نے سیلاب متاثرین کے سوگ میں اپنی سرگرمیاں معطل نہیں کیں۔ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ بدکلامی اور الزام تراشی کی سیاست بند کر دے۔کسی کو خیال نہیں آیا کہ سیاسی سرگرمیوں کے بجائے کچھ عرصہ فنڈ اکھٹے کئے جائیں اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ ڈالا جائے۔اندازہ کیجئے کہ سینکڑوں معصوم بچے سیلاب میں بہہ کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ سینکڑوں مر د اور خواتین بے بسی کی موت مر چکے ہیں۔ بچے ،بوڑھے، جوان کھلے آسمانوں تلے بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں۔یہ پڑھنا اور سننا کس قدر آسان ہے کہ سیلاب میں سینکڑوں بچے جاں بحق ہو گئے۔ ہم سب ذرا اپنے اپنے بچوں کو ذہن میں لا کر ان اطلاعات کو پڑھیں تو ہمارا دل کانپ جائے گا۔ سوچیں کہ چند دن کھلے آسمان تلے گزارنا۔ بھوکے پیاسے رہنا اور اپنے گھر والوں کو بھوک سے بلکتے دیکھنا کتنا تکلیف دہ عمل ہے۔ بنے بنائے گھر کو ملبے کا ڈھیر بنتے دیکھنا کتنا اذیت ناک ہے۔ سیاست دانوں سمیت ہم سب کو یہ باتیں سوچنی چاہییں۔ پھر شاید ہمارے دل میں سیلاب متاثرین کی مدد کا جذبہ بیدار ہو جائے۔ وفاقی پاکستان میں سینکڑوں ایسے خوشحال افراد ہیں جو لاکھوں نہیں کروڑوں روپے نہایت آسانی کیساتھ عطیہ کر سکتے ہیں۔ آخر سیاسی جماعتوں کے جلسوں اور تشہیری مہم کے کروڑوں ، اربوں روپے کے اخراجات بھی تو چند لوگ ہی برداشت کرتے ہیں۔ کروڑوں، اربوں کی فنڈنگ کے بدلے وقت آنے پر فوائد بھی سمیٹے جاتے ہیں۔ تو کیا اہل ثروت اجڑے خاندانوں کی مدد کیلئے فنڈ نہیں دئیے جا سکتے؟ لازم ہے کہ اہل خیر آگے بڑھیں اور آفت کا شکار بہن بھائیوں کی مدد کریں۔ 
اس معاملے کا ایک اور پہلو نہایت اہم ہے۔ سیلابی صورتحال میں معروف سیاسی شخصیات بھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتی ہیں۔ یہ عمل علامتی طور پر بھی اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ یہ دورے صرف فوٹو سیشن تک محدود نہ رہیں۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ سیاسی شخصیات کے پروٹوکول کی وجہ سے متاثرین کو تکلیف پہنچے اور نہ امدادی سرگرمیاں رکیں۔ بہتر ہو اگرمعروف شخصیات کیمروں کے بغیر ان علاقوں کا دورہ کریں۔ اپنے ساتھ کیمروں کے بجائے سامان رسد لے کر جائیں۔ متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھیں اور ان کی امداد کر کے واپس لوٹیں۔ اس وقت وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ وہ باقی جماعتوں کیساتھ مل بیٹھے۔ لازم ہے کہ اہل سیاست اپنے سیاسی اور جماعتی اختلاف ایک طرف رکھ کر سیلاب زدگان کی مدد کیلئے کوئی متفقہ حکمت عملی وضع کریں۔

مصنف کے بارے میں