سیاسی بدامنی کی قیمت

 سیاسی بدامنی کی قیمت

 وفاق اور صوبائی حکومتیں اگر مختلف آراءپر مبنی ہوں معیشت کا اللہ حافظ ہے، اور پاکستان کی حالت اس بات کی عکاس ہے۔ اگر پاکستان آج معاشی طور پر کمزور ہے تو اس کی ذمہ دار سیاسی گہما گہمی ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پرامن قومیں خوشحال اور ترقی پذیر ملک کی ضمانت ہوتی ہے لیکن پاکستان کی حالت دگرگوں ہے۔ آئی ایم ایف کے بیل آوٹ پیکج کے دوبارہ شروع ہونے کی پیشگوئی سے مارکیٹ کے جذبات بہتر ہوئے تھے لیکن جب تک میں استقامت نہیں آئے گی پاکستان کی مارکیٹ سٹیبل نہیں ہوسکے گی۔
عنقریب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات میچور ہوجائیں گے کیونکہ فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کے تمام 24 ارکان کو عمل کو مکمل کرنے کے لیے درکار عملے کی رپورٹ کی کاپیاں موصول ہو گئی ہیں۔ دستاویزات ممبرز کی گئی ہیں ان میں پاکستان کی جانب سے لیٹر آف انٹینٹ اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیٹر میں پاکستان کی معیشت میں اصلاحات کے لیے آئی ایم ایس کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے ملک کے منصوبوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ بورڈ کا اجلاس 29 اگست کو ہونا ہے جس میں چھ بلین ڈالر کے قرضہ پیکج کے ساتویں اور آٹھویں جائزے کی تکمیل کی رپورٹ پر غور کیا جائے گا اور یہ بھی عین ممکن ہے بورڈ 2030 جون تک اس سہولت کو بڑھانے کا فیصلہ کر لے۔
معیشت کی بحالی اور سیاسی غیر یقینی کے تعلق کو کسی طور جدا نہیں دیکھا جا سکتا۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے دی اکانومسٹ کے لیے لکھے گئے مضمون میں آئی ایم ایس پروگرام کو " پاتھ ٹو سیفٹی" یعنی تحفظ کے سفر سے تشبیہ دی ہے۔ وزیر خزانہ مفتح اسماعیل نے بغیر کسی دباو کے سخت فیصلے کیے جن سے بظاہر وقتی طور پر تو عوام پر بوجھ پڑا ہے مثلاً بجلی پٹرول اشیاءضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو عملی شکل دینے کے لیے یہ بہت ضروری تھا یہاں تک کہ قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک مرتضی سید نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا ان کی جانب سے شرح مبادلہ مارکیٹ پر مبنی رہے اور شرح سود کی پالیسی کے بارے میں سیاسی طور پر غیر مقبول لیکن درست فیصلے کیے گئے۔
ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات تو موثر کیے جا رہے ہیں لیکن وفاق اور پنجاب کی ٹسل بازی میں اس طرح کے فیصلے ان پر عمل کروانا جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا ہے۔ جب سے پی ٹی آئی نے پنجاب پر کنٹرول حاصل کیا ہے مخلوط حکومت اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان محاذ آرائی خطرناک شکل اختیار کر گئی ہے۔ مرکز صوبائی حکومت اب ایک دوسرے کے خلاف کاروائیوں میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے سیاسی انتشار پیدا ہو رہا ہے۔ عمران خان کو 25 اگست تک عدالت سے راہداری ریمانڈ مل گیا ہے جس سے وقتی طور پر ان کی گرفتاری ٹل گئی ہے ،لیکن شہباز گل ابھی بھی پولیس کسٹڈی میں موجود ہیں ، جمیل فاروقی کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت کی اگر بات کریں تو مسلم لیگ نون کے راہنماو¿ں کے گھروں پر چھاپے کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کے بعد وہ صوبے سے فرار ہوگئے تھے۔ کسی طور یہ معلوم نہیں ہوتا خان صاحب یا پھر شریف حکومت اس تناو کو کم کرنے میں قدم اٹھائے۔
تمام تر کاوشوں کے بعد ستم ظریفی یہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں در حقیقت اقتصادی پالیسی کے بنیادی عناصر پر متفق ہیں جیسے کہ ایک منصفانہ اور آسان ٹیکس نظام کا قیام ، ٹیکس کی تعمیل کو یقینی بنانا ، کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ، دیوالیہ ہونے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کو کم کرنا، مہنگائی کو کم کرنا، قرض کی سطح کو کم کرنا اور حکومتی اخراجات کو روکنا اور مالیاتی خسارے کو کم کرنا شامل ہیں۔ تمام معاملات پر سب تو ایک پیج پر ہیں جب بات سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی آئے تمام تر کوششیں راکھ ہو جاتی ہیں اور یہ لوگ مخالف سمت میں چل پڑتے ہیں جو ملک کے معاشی استحکام کی قیمت پر ان کو حاصل ہوتی ہے۔آخر میں آپ سب کے لیے سوال یہ چھوڑے جاتی ہوں کہ کیا کبھی یہ سب پاکستان کے لئے ایک پیج پر آ سکیں گے اور پاکستانی معیشت کو استقامت ملے گی۔؟

مصنف کے بارے میں