احتجاجی شاعر منیر نیازی کی آج 10ویں برسی منائی جارہی ہے

احتجاجی شاعر منیر نیازی کی آج 10ویں برسی منائی جارہی ہے

کج اُنج وی راواں اُوکھیان سن۔۔کج گلے وچ غماں دا طوق وی سی۔
کج شہر دے لوک وی ظالم سن۔۔کج سنوُ مرن دا شوق وی سی۔
اردو اور پنجابی کے بے مثال شاعر منیر نیازی 26دسمبر کو دنیا سے کوچ کر گئے۔آج ان کے مداح ان کی دسویں برسی منا رہےہیں۔انہیں احتجاجی شاعر کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں۔منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔
اردو کے معروف ادیب اشفاق احمد نے منیر نیازی کی ایک کتاب میں ان پر مضمون میں لکھا ہے کہ منیر نیازی کا ایک ایک شعر، ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ آہستہ آہستہ ذہن کے پردے سے ٹکراتاہے اور اس کی لہروں کی گونج سے قوت سامعہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
ان کے اردو شاعری کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مجموعوں میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔

مصنف کے بارے میں