قومی اسمبلی میں تصادم ،اسپیکر قومی اسمبلی کا ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے لئے کاروائی کا اعلان

قومی اسمبلی میں تصادم ،اسپیکر قومی اسمبلی کا ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے لئے کاروائی کا اعلان

سلام آباد : سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نےقومی اسمبلی میں تصادم کا باعث بننے والے اراکین کے خلاف کاروائی کا اعلان کر تے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں سے مشاورت کے بعد اس تصادم کے ذمہ داران کے خلاف حکمت عملی وضح کی جائے گی. اس امر کا اظہار انہوں نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا،سردار ایاز صادق نے کہا کہ آج ایوان میں انتہائی افسوسناک واقعہ رونما ہوا ایسا اس ایوان میں کبھی نہیں ہوا تھا اس صورتحال کو کوئی بھی صحیح نہیں کہے گا اس تصادم کے ذریعے ہم نے اپنے اوپر جو بوجھ ڈال لیا ہے اسکے حوالے سے فیصلہ کرنا پڑے گا میں نے اس ناخوشگوار واقعے کی ویڈیو منگوا لی ہے۔ حکومت اپوزیشن کے رہنمائوں سے مشاورت کے ذریعے لائحہ عمل بنایا جائے گا کہ اس صورتحال کے ذمہ داران کے ساتھ کیسے نمٹا جائے۔

قبل ازیں اس واقعہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے انتہائی جارحانہ رویہ اخیتار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو بتانا پڑے گا کہ اس نے کتنی اور عدالتیں لگانی ہے اس طوفان بدتمیزی کا محاسبہ ہونا چاہیے اور جو بھی ذمہ داران ہے قواعد و ضوابط کے مطابق ان کے خلاف کاروائی کی جائے تحریک انصاف نے اس ایوان کی توہین کی ہے اور اپنی نام نہاد استحقاق کی آڑ میں پورے استحقاق کو بے نقاب کر دیا. تحریک انصاف کی اس گالم گلوچ کو بے نقاب ہونا چاہیے تا کہ اس قسم کی حرکت نہ ہو سکے یہ عزت کرنے کی جگہ ہے یہاں بدتمیزی کے کلچر کو فروغ نہیں ملنا چاہیے. عمران خان کا ٹولہ مسلسل جمہوریت کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے پہلے بھی ڈنڈوں ، سوٹوں اور میخوں سے اسلام آباد کو بند کرنے نکلے تھے پارلیمینٹ کے جنگلے کو توڑا گیا گندے کپڑے لٹکائے گئے ججز کے راستے بند کیے گئے اورپارلیمینٹ کو اجتماعی گالیاں دی گئیں. پاکستان تحریک انصاف والوں نے یہ گالیاں بھی دیں اور بے شرموں کی طرح دوبارہ آکر بیٹھ گئے۔ یہ کس قسم کے لوگ ہیں ان کی قیادت ہر قسم کے شرعی عیب میں ملوث ہے شرم نہیں آتی اور لوگ پر تبرا کرتے ہیں ۔عمران خان کی زبان زمین پر لگ گئی ہے ہم ڈنکے کی چوٹ پر سپریم کورٹ گئے ہیں اور بُرے کو بُرے کے گھر پر چھوڑ کر آئیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ہرگز اس ایوان کا تقدس پامال نہیں کیا بلکہ شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کے احتجاج نے ایوان کے اس تقدس کو مجروح کیا ہے۔ ہم سے بڑے سرکش اور سرپھرے لوگ کوئی نہیں ہو سکتے وزارتیں تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہو جاتی ہیں مگر جدوجہد ہمیشہ زندہ رہتی ہے تحریک انصاف نے ایسی غلیظ گالیاں متعارف کروائی ہیں انہیں بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے وقت آگیا ہے کہ ان کی اوقات کو قوم کے سامنے لایا جائے ہم نے بڑی مشکل سے اپنے ساتھیوں کو اپنے قابو میں رکھا جواب دینا مشکل نہ تھا مگر یہ برداشت اور دلیل کی جگہ ہے دریں اثناء جماعت اسلامی پاکستان کے پارلیمانی رہنما صاحبزادہ طارق اللہ نکتہ اعتراض پر فلور نہ ملنے پر جماعت کے دیگر اراکین کے ہمراہ ایوان کی کاروائی کا بائیکاٹ کر گئے شاہ محمود قریشی کے وزیر اعظم کے خلاف اشتعال انگیز نعروں کی وجہ سے ایوان میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔تحریک انصاف نے وزیر دفاع کو خطاب سے روکنے کے لیے شور شرابے کا سلسلہ جاری رکھا تو آہستگی سے وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی سید نوید قمر کے پاس گئے اور کہا کہ اپوزیشن کے دو لوگ بول چکے ہیں وزیر دفاع کے بیان کے لیے ان کو خاموش کرائیں اس پر تحریک انصاف کے اراکین نے ایوان میں کشیدگی میں اضافہ کرتے ہوئے نہیں چلے نہیں چلے گی غنڈہ گردی نہیں چلے گی کے نعرے لگائے اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ انتہائی بدتمیزی سے پیش آئے کہ تم کون ہوتے ہو ہمیں چپ کروانے والے اس دوران سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیرافگن نیازی مرحوم کے بیٹے ڈاکٹر امجد نیازی نے گھونسہ مارنے کے انداز میں اپنا ہاتھ شاہد خاقان عباسی کے سینے کی طرف بڑھا دیا جس پر مسلم لیگ ن کے معین وٹو نے شہریار آفریدی کو تھپڑ رسید کر دیا اور دونوں جماعت کے اراکین نے ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لیے اس دوران ڈاکٹر طارق فضل چودھری کے ساتھ بھی کچھ اراکین آگئے اور یہ سارا دنگل اپوزیشن بینچوں کے سامنے لگا تھا بارہ سے زائد سارجنٹس نے حصار بنا لیا اور بیچ بچاؤ  کروایا تاہم تحریک انصاف کے اراکین نشستوں کو پھلانگتے ہوئے مسلم لیگ ن کے اراکین پر حملہ آور ہوتے رہے اس دوران سپیکر نے پندرہ منٹ کے لیے کاروائی روک دی تھی تحریک انصاف کے اراکین نے آئین پاکستان قواعد و ضوابط کی کتابوں اور ایجنڈے کا بھی خیال نہ کیا اور ان کو روندتے ہوئے دست و گریبان ہوتے رہے وزیر دفاع کو فلور ملا تو تحریک انصاف کے اراکین احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے پاکستان پیپلز پارٹی خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہی بعد ازاں ان کے اراکین بھی ایوان سے نکل گئے .

مصنف کے بارے میں