فحاشی کی روک تھام کیلئے ہائیکورٹ کا دبنگ حکم جاری

فحاشی کی روک تھام کیلئے ہائیکورٹ کا دبنگ حکم جاری

اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے پورنو گرافی روکنے سے متعلق حکومتی اقدامات کی رپورٹ طلب کرلی، جبکہ حکومت کو پندرہ روز میں چیئرمین پی ٹی اے تعینات کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس شوکت صدیقی نے سماعت کی ہے،عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سیکرٹری داخلہ بتائیں کہ پورنو گرافی کیسے پھیلائی جا رہی ہے؟ حکومت نے روکنے کے کیا اقدامات کیے؟ پورنو گرافی کا پورا انٹرنیشنل گینگ ہے،جس سے کسی بھی گھر کی زینب اور کلثوم محفوظ نہیں،حکومت کی طرف سے پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم سے متعلق وزارت آئی ٹی کا مجوزہ مسودہ عدالت میں پیش کیا گیا جس پر جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ ڈرافٹ کے مطابق تعلیمی اداروں میں پورنو گرافی کو فری ہینڈ دے رہے ہیں، ڈرافٹ میں پورنو گرافی کی تعریف نہیں لکھی گئی، ایسا کونسا لٹریچر ھے جو پورنو گرافی پر مشتمل ھوتا ھے؟ وزارت آئی ٹی میں ایسے دماغ ہیں جن میں کیڑا ہے، جن کا مقصد پاکستان کو سیکس فری بنانا ہے۔
جواب میں سپیشل سیکرٹری نے کہا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز سے مل کر چار اجلاس کیے ہیں، پی ٹی اے نے 212 ویب سائٹس بلاک کی ہیں، پی ٹی اے 22210 ویب سائٹس کے لنکس بلاک کردئیے ہیں۔جسٹس صدیقی نے کہا ہے کہ ٹی وی چینلز پر مارننگ شوز نے تباہی پھیر دی ہے،جو مارننگ شوز بنیادی اخلاقیات اور اسلامی شعائر کے خلاف ہیں ان چینلز پر پابندی لگائی جانی چاہیے، پیمرا کیا کر رہا یے؟ کیا پیمرا بے بس ہے؟ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی اور پورنو گرافی کی تربیت کا مرکز ہالی وڈ ھے، جرائم پھیلانے میں ہالی وڈ کا مرکزی کردار یے،الزام ہمارے مدارس پر لگایا جاتا ھے، جہاز کیسے اغواءھوتے ہیں،قتل کیسے کرتے ییں،جرائم کی مکمل ترغیب دی جاتی ہے، لاس اینجلس دہشت گردی کا مرکز ھے،بچوں کی تمام ویڈیو گیمز بھی جرائم پر مبنی ہیں۔
عدالت نے پندرہ روز میں چیئرمین پی ٹی اے تعینات کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ممبر فنانس پی ٹی اے کی بھی تعیناتی کریں،عدالت نے پیمرا سے مارننگ شو میں پورنو گرافی سے متعلق رپورٹ طلب کر لی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے فحاشی روکنے سے متعلق اعلی اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے دی۔کمیٹی بیرون ملک سے آنی والی فلموں کا بھی جائزہ لے، پاکستان کے کلچر،اخلاقیات کے خلاف فلموں پابندی لگائی جائے،سماعت پندرہ روز تک ملتوی کردی گئی ہے۔