تلاش رزق اور مشرق ومغرب

Dr Zahid Munir Amir, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

زندگی میں روزگارکی تلاش بھی عجیب وغریب رنگ دکھاتی ہے۔ اقبال نے بے وجہ تونہیں کہاتھا کہ’ تلاشِ رزق گھٹاتی ہے شانِ رفعت کو +ہمازمین پہ آتاہے استخواں کے لیے‘یہاں ’’ہما‘‘کاتو نہیں پاکستانی شاہینوں کا ذکرہے ۔اٹلی میں جن تارکینِ وطن سے ملاقات ہوئی ان کی کہانیاں بڑی دردناک تھیں ۔پاکستانی نوجوان غربت اور بے روزگاری سے گھبراکر یورپ کی ’’جنت ‘‘کا رخ کرتے ہیں ۔وہ اپنے خوابوں کے اس جزیرے تک پہنچنے کی کیاقیمت اداکرتے ہیں اس کا اندازہ ہمیں اٹلی کے ان نوجوانوں سے مل کرہوا۔میں تو بخاراور مصروفیت کے باعث جستجونہ کرسکا البتہ  حذیفہ صاحب اس جستجو میں رہے کہ وہ ان نوجوانوں کا حال جانیں ۔وہ ان کے ساتھ گھومے پھرے اوریورپ کی’’ رنگینیوں ‘‘میں رہنے والے ان ہم وطنوں کے شب وروزسے آگہی حاصل کرتے رہے ۔
یونان میں ہمارے قیام کے دوران پاکستانی سفیر جناب خالدعثمان قیصر سے ترک وطن کی خاطراہل وطن کے جو’’ کارنامے‘‘ سنے تھے ابھی ان کاافسوس تازہ تھاکہ اٹلی کے ان پاکستانی نوجوانوں سے ملاقات ہوگئی جن میں اکثر غیرقانونی طریقوں سے یہاں پہنچے تھے ۔یہ تو وہ لوگ تھے جو یہاں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو راستے ہی میں دھرلیے جاتے ہیں یاشدائدکا مقابلہ کرتے ہوئے جان ہار جاتے ہیں۔
نیپلزیونی ورسٹی جاتے ہوئے ایک نوجوان نے ہماری راہ نمائی کا فریضہ سنبھال لیاتھا۔حذیفہ اس کے ساتھ مسلسل محو گفتگورہاوہ بتارہاتھاکہ پاکستان سے یورپ جانے کے خواہش مندنوجوان ایران، ترکی اوریونان کے راستے اٹلی میں داخل ہوتے ہیں ۔سمندری راستوں ،ویرانوں، جنگلوں اورنجانے کہاں کہاں سے گزرتے ہوئے یورپ پہنچتے ہیں ۔پاکستان میں جھوٹے سچے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ کر یہ اپنی پونجی لٹاتے ہیں۔راستے میں پکڑے جانے پر قانون نافذکرنے والے اداروں سے جسمانی اور زمانی سزائیں پاتے ہیں راستے کے شدائدکا مقابل کرتے ہیں ایک نوجوان جب ترک وطن کے مرحلے سے گزررہاتھاتو ماں کی مامتا نے اسے اکیلے نہ جانے دیااور بچے کی حفاظت کے خیال سے ساتھ ہولی لیکن عمررسیدہ ماں، راستے کے شدائدکی تاب نہ لاسکی، کسی جنگل سے گزرتے ہوئے اس کی زندگی کا چراغ گل ہوگیااور بیٹا ماں کے وجود کو راستے ہی میں چھوڑ کرآگے بڑھ گیا۔
بعض اوقات چھپ چھپاکر جنگل پارکرنے والے، جنگلی درندوں کی خوراک بھی بن جاتے ہیں۔ ایک کاروان پاکستان سے یونان پہنچے میں کامیاب ہوگیا یونان سے بحری راستہ اختیارکرکے اٹلی آرہاتھا۔ایسے مقاصد کے لیے عام طور سے ازکارافتادہ اور ٹوٹی پھوٹی کشتیاں میسرہوتی ہیں ۔اٹلی آتے ہوئے ان کی شکستہ کشتی گرداب میں گھر کر 
سمندرکی پہنائیوں میں گم ہوگئی اورآنکھوں میں سہانے مستقبل کے خواب سجائے سب مسافر سمندرکی نذرہوگئے ۔جو لوگ سب کچھ کے باوصف یہاں پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ان کے ایجنٹس ان کے پاسپورٹ لے کر سمندرمیں پھینک دیتے ہیں۔اس امیدپر کہ کسی نہ کسی دن زندگی کے سمندر میں بے پتوار ہچکولے کھاتے کھانے والے یہ مسافرکبھی کسی کنارے تک پہنچ جائیں گے۔
یہ لوگ پہلے تو ایجنٹوں کے استحصال کاشکار ہوتے ہیں پھرراستے میں کامیابی سے منزل تک پہنچانے کا جھانسہ دینے والے مل جاتے ہیں ۔زندہ سلامت منزل تک پہنچ جانے والے یہاں کی مقامی استحصالی قوتوں کا شکارہوتے ہیں ۔یورپ میں عام مزدور کی جو اجرت مقررہے یہاں کاسرمایہ دار طبقہ ان لوگوں کو اس سے کم اجرت پر رکھ لیتاہے۔ قانونی اعتبارسے کمزوروکٹ پر ہونے کے باعث یہ لوگ ان کے استحصال کے خلاف کوئی دادفریاد نہیں کرسکتے ،اگران کے پاس کاغذات ہوں تو وہ ہتھیالیے جاتے ہیں اوراچھے دنوں کے خواب آنکھوں میں سجاکر خاک وطن سے نکلنے والے یہ نوجوان عشروں تک ان ممالک میں عملاً قیدیوں کی سی زندگی گزارتے ہیں ۔ادھر وطن عزیزمیں ان کے اعزہ اپنے فرزندکے یورپ میں سیٹل ہوجانے کی نویدمسرت سناتے نہیں تھکتے ۔کچھ ایسے ہی مشاہدات رہے ہوں گے جن کا نتیجہ اسی سفرکے دوران راقم کی ایک نظم کی صورت میں نکلا 
شب و روز کے سلسلے جومحبت کی خوشبوسے مہکے ہوئے تھے 
ضرورت کی زد پر جب آئے 
تو پانی کا پہنا ہوا پیرہن بھی سفینوں کو سونپا
اور اُجلے سمندر بھی نہروں میں بدلے
یہ بگلوں سے پوچھو
کہ کن آبنائوں کے پانی تھے گدلے
جو مٹی سے اٹھ کر 
بہے ،اس بہائو میں 
جو سمت رکھتانہیں تھا 
وہ بگلے تھے پگلے
وہ عمروں کے حاصل ،وہ رشتوں کی گرھیں 
زمینوں کے ناتے،ستاروں سے  باتیں
وہ سب اب کہاں ہیں
کہاں ہیں وہ گم گشتہ اجلے مسافر 
غلط فہمیوں میں سفر پر چلے تھے خزانوں کے جویا
خزانے لٹانے  
 نیپولی سنترال یعنی نیپولی سنٹرل کے علاقے سے ہم نیپلزیونی ورسٹی جانے کے لیے جس ٹیکسی میں سوارہوئے وہاں سے نیپلزیونی ورسٹی زیادہ دورنہیں تھی۔ ہم نے ایک ٹیکسی کوروکا خیال تھاکہ یہ یورپ یہاں تو میٹرکے مطابق کرایہ دیناہوگا اور مصرکی طرح کسی قسم کے ردوکدکی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔مصرمیں تو آپ جو بھی طے کریں اترتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور کے پاس (فکہ)کھلا نہیں ہوتاتھایاپھر راستے کے ازدحام کا بہانہ بناکر وہ یک طرفہ طورپرپہلے سے طے شدہ اجرت کو بڑھا دیتا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کے باب میں مشرق ومغرب کے قیاسی تفاوت کو ہمارے اس ٹیکسی ڈرائیورنے یک سرغلط ثابت کیا۔پہلے تو ا س نے میٹر پر جانے سے انکارکرتے ہوئے ہم سے دس یورو کرایہ طلب کیا۔ صبح کا وقت تھا ساراشہراپنی منزلوں کی جانب رواں تھاہمیںیہ رقم گوزیادہ لگی لیکن ہم بیٹھ گئے لیکن جب ٹیکسی روانہ ہوئی تو راستے میں اس مردِشریف نے کہاکہ منزل پر پہنچ کرکرائے کے علاوہ ساڑھے تین یورو ٹیکس بھی لوں گا۔ بہرحال اب سفرشروع ہوچکاتھا اور اس کے استحصال کا شکاربننے کے سواکوئی دوسرا راستہ ہمارے پاس نہیں تھا۔
جب ٹیکسی منزل پر پہنچ کررُکی تو معلوم ہواکہ فاصلہ تو اتنا بھی نہیں تھاجتنا اورینٹل کالج سے جی پی اوتک کا ہے، تاہم اب اس کے مطالبے کو پوراکرنے کے سواکوئی چارہ نہ تھا، اس کی دھوکہ دہی کاخیال اس وقت محکم ہوگیاجب واپسی پر اسی فاصلے کے لیے کی جانے والی ٹیکسی کا ڈرائیور میٹر کے مطابق چلا ۔ ساڑھے تین یوروپر ٹیکسی نے سفرکا آغازکیا اور ساڑھے پانچ یورو پر ہم اپنی منزل پر تھے گویا یہ فاصلہ اصل میں دویوروکاتھا۔

مصنف کے بارے میں