مشکل راستے کا انتخاب کس لیے؟

مشکل راستے کا انتخاب کس لیے؟

قومی اسمبلی میں مالی سال 2022-23کے بجٹ پر بحث کو سمیٹتے  ہوئے وفاقی وزیرِ خزانہ جناب مفتاح اسماعیل نے ٹیکس وصولی کا ہدف 7004 ارب روپے سے بڑھا کر 7470ارب روپے کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس کے ساتھ ہی وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے اپنے اقتصادی ماہرین سے مشاورت کے بعد ٹیکس وصولی ہدف میں 466ارب روپے کے اس اضافے کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے بعض اقدامات کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ان اقدامات کو "غربت کم کرو" پروگرام کا نام دے کر امراء اور دولت مند طبقے کو اس میں بھرپور شرکت کی دعوت دی ہے۔ انھوں نے ایک طرف سالانہ 15کروڑ ، 20کروڑ، 25کروڑ اور 30کروڑ روپے سے زائد آمدن والے صاحب ثروت  افراد پر علی الترتیب 1سے 4 فی صد تک سپر ٹیکس کے نفاذ کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف 13ایسی بڑی صنعتوں یا شعبوں کا بھی اعلان کیا ہے جن سے 10فی صد کی شرح سے سپر ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ ان میں سیمنٹ ، سٹیل، چینی، تیل و گیس، فرٹیلائزر، ایل این جی ٹرمنل، ٹیکسٹائل ، آٹو موبائلز ، سیگریٹ، کیمکلز، بیوریجز اور بینکس وغیرہ شامل ہیں۔ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہمیشہ غریب قربانی دیتا ہے۔ اب امیر افراد آگے آئیں اور انصار مدینہ کی یاد تازہ کریں، مشکل کے بعد آسانی ہوگی۔ روکھی سوکھی مل کر کھانا ہوگی، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اُمراء سے لے کر غریبوں پر خرچ کرے۔ 
وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کے غریبوں کے لیے ہمدردی کے ان جذبات اور امراء سے ایثار کا تقاضا اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس کے لیے  ان کی حکومت نے جو راہ اختیار کی ہے وہ کوئی کم پرُ خطر نہیں ہے بلکہ اس سے موجودہ حکومت کا مستقبل اور مسلم لیگ ن کی مقبولیت داؤ پر لگی ہوئی نظر آتی ہے۔بلا شبہ وفاقی بجٹ برائے سال 2022-23ء میں محاصل  یا آمدنی میں اضافے کے لیے تجویز کئے گئے اقدامات غیر معمولی نوعیت کے سمجھے جا سکتے ہیں۔ پہلے ایسے کبھی نہیں ہوا کہ وفاقی بجٹ پارلیمنٹ سے حتمی طور پر منظور نہ ہوا ہو، قومی اسمبلی میں اس پر بحث جاری ہو اور وفاقی وزیرِ خزانہ بحث سمیٹتے ہوئے فنانس بل میں اتنی بڑی تبدیلیاں لے آئیں یا اتنے بھاری ٹیکسوں کے نفاذ کا اعلان کر دیں کہ جس سے فنانس بل کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل ہو کر رہ جائے۔ فنانس بل میں پیش کی گئی ٹیکس تجاویز یا آمدنی کے ذرائع کے حوالے سے چھوٹی موٹی تبدیلیاں  معمول کا حصہ رہی ہیں اسی طرح ایف بی آر کی طرف سے اختیارات استعمال کرتے ہوئے مختلف اشیاء پر عائد ڈیوٹیوں یا ٹیکسز کی شرح میں رد و بدل وغیرہ کی مثالیں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔  فنانس بل میں کسی بڑی تبدیلی یا ترمیم کے لیے پارلیمنٹ سے اس کی منظوری بھی لی جاتی رہی ہے۔ جیسے اس سال کے شروع میں عمران خان کی حکومت نے 363ارب روپے کے اضافی ٹیکس وصول کرنے کے لیے منی فنانس بل قومی اسمبلی میں پیش کرکے پارلیمنٹ سے اس کی باقاعدہ منظوری لی۔ فنانس بل میں اس طرح کی بڑی تبدیلی اور اس کی منظوری کو عام طور پر ضمنی بجٹ پیش کرنے کا نام دیا جاتا ہے اور اسے ملکی معیشت کے حوالے سے کچھ زیادہ نیک شگون نہیں سمجھا جاتا۔ خیر میاں شہباز شریف کی حکومت اپنے اقتصادی اور معاشی ماہرین کی مدد اور مشاورت کے بعد ملکی محاصل (آمدنی)، تقریباً 466ارب روپے کے اضافی وسائل حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ جس کے لیے جیسے اوپر کہا گیا ہے 10 فیصد تک سُپر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔یقینا اس کے ملکی معیشت پر جہاں دور رس اثرات مرتب ہونگے وہاں عوام الناس کے مختلف طبقات پر بھی اس کے اثرات اضافی بوجھ کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ کہا جا سکتا ہے کہ میاں شہباز شریف کی حکومت کو آئی ایم ایف سے عمران حکومت کے قرضے کے معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے اس طرح کے مشکل اور عوام میں ناراضگی کا باعث بننے والے فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں تاکہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پروگرام کے تحت قرض کی بقیہ اقساط ہی نہ مل سکیں بلکہ آئندہ کے لیے بھی آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام کو جاری رکھا جا سکے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ (دیوالیہ) ہونے سے بچانے کے لیے اس طرح کے مشکل فیصلے کرنے ضروری تھے۔ اس سے قبل میاں شہباز شریف کی حکومت پچھلے ایک ماہ کے دوران پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کے نرخوں میں بھی بھاری اضافہ (کم از کم 84روپے سے زائد فی لیٹر)  کر چکی ہے۔ بجلی کے فی یونٹ نرخ بھی تقریباً 8روپے تک بڑھائے جا چکے ہیں۔ یقینا شہباز شریف حکومت کے یہ تمام فیصلے انتہائی مشکل اور شہباز حکومت بالخصوص مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ جائزہ لینا ضروری سمجھا جا سکتا ہے کہ کیا میاں شہباز شریف کی حکومت کو مشکل  اور غیر مقوبل فیصلے کرنے کی راہ اختیار کرنی چاہیے تھی یا حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے عام انتخابات کے انعقاد کی راہ کو اختیار کرنا زیادہ بہتر ہوتا۔
بلا شبہ میاں شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی قومی اسمبلی کی تحلیل اور ملک میں عام اتنخابات کے قبل از وقت انعقاد کا اعلان کر دیتے تو یقینا یہ ایک آسان راستہ تھا اور ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات کا ذمہ دار مکمل طور پر عمران خان کی حکومت کو ٹھہرایا جا سکتا تھا۔ بلا شبہ عمران خان کے تقریباً چار سالہ دورِ حکومت میں ہوشرباء مہنگائی اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں جو بے پناہ اضافہ ہوا، ملک معاشی ابتری اور بد حالی کا جس طرح شکار ہوا۔ اس کے ڈیفالٹ ہونے کا جو خطرہ پیدا ہوا، بجلی کی پیداوار میں کمی اور کئی کئی گھنٹوں پر محیط لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھا اور اس کے ساتھ دیگر جو دوسرے مسائل بھی پیدا ہوئے  یقینا حزبِ مخالف کی جماعتوں باالخصوص مسلم لیگ ن کے لیے عمران خان اور اس کی جماعت تحریک انصاف کے خلاف عام انتخابات میں انتخابی مہم چلانے کے لیے ایک حوصلہ افزا صورتحال تھی جس کے ذریعے انتخابی مہم کے دوران عمران خان اور اس کی جماعت کو بہتر طور پر ایکسپوز (Expose) کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے بجائے پی ڈی ایم جماعتوں نے حکومت بنا کر اور میاں شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ سنبھال کر ایسی راہ اختیار کی جو ہر لحاظ سے پرُ خطر ہی نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کی مقبولیت کے لیے بظاہر زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے تو اس کا کیاجواز ہو سکتا ہے بظاہرمیاں شہباز شریف کا وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنا ایک گھاٹے کا سودا نظر ٓتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے مبصرین ،اورثقہ ، تجزیہ کار جن میں سید طلعت حسین اور جناب نصرت جاوید جیسے معتبر، مؤقر، باخبر اور سنجیدہ خو تجزیہ کار اور مبصر شامل ہیں وہ عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیش کرنے کے ہی مخالف نہیں تھے بلکہ میاں شہباز شریف کا وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد قومی اسمبلی 
کے اگست 2023ء تک بقیہ 14ماہ کے عرصے کے دوران اس حکومت کے قائم رہنے کے فیصلے سے بھی متفق نظر نہیں آتے ہیں۔ 
نصرت جاوید تواپنے کالموں میں اکثر اس رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ عمران خان کو حکومت سے ہٹانے کی بجائے اسے پوری مدت تک یا کم از کم اس بجٹ کے پیش کرنے اور منظور ی تک حکومت میں رہنے دیا جاتا۔ اس طرح وہ ایسی مشکلات میں گھرے نظر آتے کہ جن کا سامنا کرنا اُن کے لیے ممکن نہ ہوتا۔ سید طلعت حسین کے خیال کے مطابق میاں شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھال کر اپنی دیرینہ خواہش (Ambitions)کو تو پورا کر لیا ہے لیکن جس طرح کے وہ غیر مقبول فیصلے کر رہے ہیں ان سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کی مقبولیت پر خود کلہاڑے چلا رہے ہیں۔ جناب نصرت جاوید ہوں یا سید طلعت حسین اُن کے ان قابلِ قدر خیالات کو رد نہیں کیا جا سکتا تاہم کچھ پہلو ایسے ہیں جو بہر کیف اس بات کے متقاضی تھے کہ میاں شہباز شریف کی حکومت کو وجود میں آنے کے بعد اسے قومی اسمبلی کے بقیہ عرصے تک ضرور قائم رہنا چاہیے۔ اس کے حق میں جو سب سے بڑی دلیل دی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے وقت ملک جس طرح کی پریشان کن اوربحرانی صورتحال سے دوچار تھا اور اس کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ سامنے نظر آ رہا تھا اور آ رہا ہے اس صورت میں انتخابات کے فوری انعقاد کا فیصلہ ملک کے مفاد میں نہ ہوتا۔ اس طرح اگر میاں شہباز شریف بطورِ وزیرِ اعظم اگر یہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی جماعت کی سیاست کی بجائے ریاست کے مفاد کو ترجیح دی ہے تو اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح موجودہ حکومت کے آگے چلنے کا جواز اس طرح بھی بنتا ہے کہ عمران حکومت نے انتخابات کے انعقاد کے لیے جو یکطرفہ قانون سازی کر رکھی تھی اور جس کے تحت انتخابات کے انعقاد کی صورت میں اپوزیشن جماعتوں کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر دیکھائی دے رہے تھے اس قانون سازی کوکالعدم قرار دینے اور اس کی جگہ پر نئے انتخابی اور نیب قوانین کی منظوری کے لیے اپنی حکومت کا قیام ضروری تھا۔ بلا شبہ میاں شہباز شریف کی حکومت  انتخابی اور نیب قوانین کی پارلیمنٹ سے منظوری کا مشکل مرحلہ سر کر چکی ہے۔ ایک اور پہلو بھی شہباز شریف کی حکومت کے بقیہ مدت تک قائم رہنے کے حق میں جاتا ہے کہ میاں شہباز شریف اور حزبِ مخالف کے بعض دیگر راہنماؤں کے خلاف جو مقدمات قائم تھے اور ای سی ایل میں ان کے نام وغیرہ شامل تھے اُن کے حکومت کے قیام سے اس صورتحال سے بچنے کی راہ بھی یقینا ہموار ہوئی ہے۔ آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ میاں شہباز شریف کی حکومت گُڈ گورننس اور خلوص نیت کے ساتھ مشکل اور نا مقبول فیصلوں پر عملدآمد کراتے ہوئے ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جس کی بڑی حد تک اُمید کی جا سکتی ہے تو پھر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ شہباز شیرف کا وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالنا محض ان کی خواہش (Ambitions)کی تکمیل ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں بھی ہے۔

مصنف کے بارے میں