دوحا معاہدہ ہی پرامن افغانستان کے قیام کیلئے دانشمندانہ اور مختصر ترین راستہ ہے، طالبان

 دوحا معاہدہ ہی پرامن افغانستان کے قیام کیلئے دانشمندانہ اور مختصر ترین راستہ ہے، طالبان
کیپشن: دوحا معاہدہ ہی پرامن افغانستان کے قیام کیلئے دانشمندانہ اور مختصر ترین راستہ ہے، طالبان
سورس: فائل فوٹو

کابل: افغان طالبان نے امریکی صدر جوبائیڈن کے افغانستان سے فوج کے انخلاء سے متعلق بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ دوحا معاہدہ ہی پرامن افغانستان کے قیام اور 20 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے دانشمندانہ اور مختصر ترین راستہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق امریکی صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے افغان طالبان نے کہا کہ امریکی صدر نے دوحا معاہدے اور غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء سے متعلق مبہم بیان دیا، بعض نیٹو ممبر بھی افغانستان میں قیام کی توسیع کےخواہاں ہیں کہ دوحا معاہدہ ہی پرامن افغانستان کے قیام اور 20 سالہ کے خاتمے کے لیے دانشمندانہ اور مختصر ترین راستہ ہے۔

طالبان کا مزید کہنا ہے کہ امارات اسلامی معاہدے میں کیے گئے اپنے وعدوں پر مضبوطی سے کاربند ہے اور چاہتے ہیں امریکا بھی دوحا معاہدے پر مضبوطی سے کاربند رہے۔ امریکا جنگ چاہنے والے حلقوں کے اکسانے کی وجہ سے تاریخی موقع ضائع نہ کرے۔

افغان طالبان نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ طے شدہ تاریخ پر تمام فوجی نہ نکلے تو اسے امریکا کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر جوبائیڈن نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے 64 دن بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس سے میں کہا تھا کہ ہم افغانستان میں زیادہ عرصہ نہیں رُکیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ برسلز میں نیٹو ممالک سے صلاح مشورہ کر رہے ہیں جبکہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی خطے میں ملاقاتیں کی ہیں اور میرا افغانستان میں زیادہ عرصہ ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔

صدر بائیڈن نے چین امریکا تعلقات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ چین کے ساتھ تصادم نہیں چاہئے بلکہ سخت سے سخت مقابلہ چاہتے ہیں لہٰذا امریکا سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں تحقیق و ترقی کی رفتار بڑھا رہا ہے۔ 

انہوں نے ہانگ کانگ کی صورتحال اور انسانی حقوق کا ذکر کرتے ہوئے چین سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکاکی طرح جمہوری انسانی حقوق اور دیگر اقدار پر پیشرفت کرے۔ انہوں نے سائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی کے شعبوں میں چین کی جانب سے امریکا کے مقابلے میں تین گنا زیادہ وسائل خرچ کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے ری پبلکن لیڈر شپ کو بھی توجہ دلاتے ہوئے تعاون کی ضرورت کا اظہار کیا۔