آئی ایم ایف کیا چاہتا ہے؟

آئی ایم ایف کیا چاہتا ہے؟

پچھلے چند ماہ سے پاکستان سر توڑ کوششیں کر رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اس کے سٹاف لیول معاہدے پر دستخط ہو جائیں تاکہ آئی ایم ایف سے 2019ء میں طے پانے والے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قرض معاہدے کی ایک ارب ڈالر کی آخری قسط جاری ہونے کی راہ ہموار ہو سکے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے سٹاف لیول معاہدے کے لئے جتنی بے تابی اور بے چینی کا اظہار سامنے آرہا ہے، آئی ایم ایف کی طرف سے اتنی ہی تاخیر ہو رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کون سے عوامل یا امور ہیں جو آئی ایم ایف کی طرف سے سٹاف لیول معاہدے پر دستخطوں کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور تاخیر کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ پچھلے دنوں میں اس طرح کی قیاس آرائیاں بھی سامنے آئی ہیں کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے ایٹمی و میزائل پروگرام پر کچھ اعتراضات اور تحفظات ہیں اور آئی ایم ایف اس ضمن میں کچھ شرائط اور پابندیوں پر اصرار کر رہا ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پانے اور سٹاف لیول معاہدہ ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے۔
اس حوالے سے حقیقی صورتحال کیا ہے اور کیا آئی ایم ایف کو پاکستان کے ایٹمی و میزائل پروگرام کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں تو اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اور سینیٹر رضا ربانی کی سینیٹ کے گولڈن جوبلی خصوصی اجلاس میں کی جانے والی تقاریر میں کچھ اشارے ضرور ملتے ہیں۔ جناب اسحاق ڈار کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر حکومت کی طرف سے نہیں ہے، ہم نے ہر چیز مکمل کر لی ہے۔ سٹیٹ بینک کی خود مختاری اور دیگر قوانین جو پارلیمنٹ نے منظور کیے ہیں ان سے مانیٹری پالیسی بہت آزاد ہو گئی ہے۔ بہت زیادہ مطالبات سامنے رکھے گئے ہیں۔ ہمیں قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔ ایٹمی و میزائل پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ پاکستان کو بتائے کہ وہ کس رینج کے میزائل یا ایٹمی ہتھیار رکھے۔ سینیٹر رضا ربانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین سٹاف لیول ایگریمنٹ میں تاخیر ہو رہی ہے اور یہ اس عالمی ایجنڈے کی وجہ سے ہے جس کا مقصد پاکستان کو اس ایجنڈے میں حصہ لینے پر مجبور کرنا ہے۔ اس تاخیر کا مقصد پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہے کہ چین کے ساتھ اپنے سٹریٹیجک تعلقات اور ایٹمی پروگرام پر نظر ثانی کرے۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر ہے جو اس خطے میں آ رہا ہے مگر قوم کو اس بارے میں اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔
وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اور سینیٹر رضا ربانی کی سینیٹ کے اجلاس میں کی جانے والی ان تقاریر سے بہر کیف اتنا ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پہلے کے مقابلے میں سخت اور مشکل ہو چکی ہیں اور آئی ایم ایف کا پاکستان کی معاشی اور مانیٹری پالیسیوں میں عمل دخل بڑھ چکا ہے۔ اس کے ساتھ یہ اشارے بھی ملتے ہیں کہ مانیٹری پالیسی کے آزاد ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف کو پاکستان کے اخراجات، جن میں دفاعی اخراجات بھی شامل ہیں، کے بارے میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ رسائی حاصل ہو چکی ہے اور وہ ہمیں مزید قرض دینے سے قبل ان اخراجات پر پابندی لگانے یا ان میں کٹوتی 
کرنے کی شرائط بھی عائد کر رہا ہے یا کر سکتا ہے۔ خیر صورتحال جیسی بھی ہے ایٹمی و میزائل پروگرام کے بارے میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اعظم ہاؤس اور بذات خود آئی ایم ایف کی طرف سے بعد میں ایسی وضاحتیں سامنے آ چکی ہیں جن کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی و میزائل پروگرام پر آئی ایم ایف کا بہر کیف کوئی دباؤ نہیں اور نہ ہی کوئی نئی شرائط عائد کی جا رہی ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ایٹمی پروگرام میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کی گنجائش نہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر خالصتاً تکنیکی معاملہ ہے۔ 16مارچ کو سینیٹ آف پاکستان کے فلور پر آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی وجوہات سے متعلق ان کے بیان کا سیاق و سباق سے ہٹ کر حوالہ دیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں وضاحت کی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف اور نہ ہی کسی ملک نے ہماری جوہری حیثیت کے حوالے سے کوئی شرط عائد کی ہے۔ جناب اسحاق ڈار کی اس وضاحت سے قبل وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے بھی اس طرح کی ایک وضاحت آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی و میزائل پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے۔ ریاست پاکستان ہر طرح سے اس پروگرام کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ یہ پروگرام مکمل طور پر محفوظ، فول پروف اور کسی بھی دباؤ سے ماورا اور آزاد ہے۔
پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے بارے میں یہ بیان کافی سمجھے جا سکتے ہیں کہ اس حوالے سے پاکستان کو کسی دباؤ کا سامنا نہیں۔ تاہم یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ آخر جناب اسحاق ڈار کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ سینیٹ کے فلور پر اس طرح کی بیان بازی کرتے جس سے خواہ مخواہ کی قیاس آرائیوں کی راہ ہموار ہوئی۔ اسی طرح وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ٹویٹس بھی غیر ضروری سمجھے جا سکتے ہیں کہ جب کوئی بات، معاملہ یا ایشو سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو اس کے بارے میں غیر ضروری بیان بازی یا وضاحت کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ خیر ان وضاحتوں اور صراحتوں سے ہٹ کر آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان ایسٹر پریز اور امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل ای کوریلا کے اس بارے میں بیانات کے بعد یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف یا امریکی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے ایٹمی و میزائل پروگرام کے بارے میں کسی طرح کی شرائط، تحفظات اور خدشات کے ضمن میں کی جانے والی قیاس آرائیوں میں کوئی حقیقت نہیں۔ آئی ایم ایف کی نمائندہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان کسی بھی معاہدے میں پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ پاکستان سے مذاکرات صرف معاشی پالیسی پر ہو رہے ہیں جن کا مقصد میکرو اکنامک اور مالی استحکام لانا ہے۔ امریکی جنرل کا بھی کہنا ہے کہ انہیں پاکستان کے جوہری سلامتی کے طریقہ کار پر اعتماد ہے، تاہم پاکستان کو اس وقت بجٹ، معاشی مسائل، سیاسی کشیدگی اور دہشت گردی کے چیلنج درپیش ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات کے حوالے سے معروضی صورتحال کے یہ پہلو بڑی حد تک واضح اور چشم کشا ہیں۔لیکن یہ سوال بہر کیف موجود ہے کہ آخر آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے پر دستخط کرنے اور پاکستان کو پہلے سے طے شدہ قرضے کی ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی آخری قسط جاری کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کر رہا ہے۔ وہ پاکستان سے اور کون سے مطالبات اور شرائط پوری کرانا چاہتا ہے؟ کیا پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرنے کے لیے بہت سارے اقدامات پہلے ہی نہیں کرچکا ہے؟ ساڑھے تین سو ارب روپے کے اضافی وسائل حاصل کرنے کے لیے منی فنانس بل یا ضمنی بجٹ کی منظوری، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران کم از کم 70روپے فی لٹر تک اضافہ، بجلی اور گیس کے نرخ تین گنا سے زائد بڑھانا، کئی طرح کے نئے سر چارجز کا اضافہ، ہر طرح کی سبسڈی کا مکمل خاتمہ اور سیلز ٹیکس کی عمومی شرح 16سے بڑھا کر 18 اور بعض مخصوص اشیاء پر اس کی حد کو 24% تک بڑھانا وغیرہ، کیا یہ سارے اقدامات ایسے نہیں ہیں جو آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے نہیں کیے گئے ہیں لیکن آئی ایم ایف ہے کہ مانے نہیں مان رہا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی جارہی ہیں اور پاکستان کے ساتھ اس کے معاملات طے پانے میں کوئی تسلی بخش صورتحال سامنے نہیں آپا رہی ہے۔ اللہ جانے آئی ایم ایف ہم سے اورکتنی ناک رگڑوانا اور ہمارے بل کس نکالنا چاہتا ہے۔