دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب

شعبان المعظم رخصت ہو ا، روحانی حیات کے لیے آبِ حیات کا درجہ رکھنے والا رمضان المبارک رب تعالیٰ کے بہترین وعدے لیے طلوع ہونے کے باوجود کیا کیجئے کہ ہم اسی بتِ کافر ادا آئی ایم ایف کے آگے گلوگیر فریادیں لیے بند دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں، پندار کا صنم کدہ ویران کیے ہوئے۔ اقبال نے کہا تھا کہ: فرنگ کی رگِ جاں پنجہئ آئی ایم ایف میں ہے۔ یہ منہ مانگی بلا ہمارے یکے بعد دیگرے سابق وموجودہ حکمرانوں نے مول لی ہے۔ ایک عالی شان نظریے پر وجود پانے والے ملک کی نظریاتی بنیادوں پر بالخصوص گزشتہ 20سالوں میں جو تیشہ چلایا گیا یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک بھیانک بحرانوں کے گرداب میں ہے۔ اللہ سود کا مٹھ مار دینے کا اصول بیان کرچکا۔ سود کو اللہ رسول سے جنگ کے مترادف بھی قرآن نے قرار دے دیا۔ پھر بھی انہی راہوں پر بگٹٹ دوڑنے کا یہی نتیجہ عین متوقع ہے، انہونا نہیں۔ اسلام ہی اس مملکت کی بنیادِ بقا ہے۔ اس سے غداری کرنے پر پرویزمشرف کا اذیت ناک انجام سب کے سامنے ہے۔ دنیا کی ساری دولت، شہرت، قوت، شوکت کے باوجود انسان اپنے اعمال کے ساتھ تنہا زندگی کے آخری مراحل ومابعد بھگتتا ہے۔ بعدازاں کراچی اور پورے ملک کی سٹی گم کر دینے والا ہر چینل پر گرجتا برستا الطاف حسین اب کہاں ہے؟ مگر کرسی کا نشہ مدہوش کن ہے۔ یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے۔
سو آج عمران خان ملکی منظرنامے کو تہس نہس کیے دے رہے ہیں نتائج وعواقب (ملکی، قومی، ذاتی) بھلائے تو کیا عجب ہے۔ اسی کا مزا ہمارے دشمن لے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ عوام پر زندگی اجیرن کی جا رہی ہے۔ اللہ کے قوانین سے دامن چھڑاکر، منہ موڑکر اللہ کی کائنات کے ایک ننھے سے سیارے پر براجمان، ہم خیر کیونکر پا سکتے ہیں۔ عین اسی پر سورۃ المائدہ میں گرفت ہے۔ ماہِ قرآن ہے۔ اتنے ان پڑھ اور نادان بے شعور بلکہ فاسق ہونے کا ثبوت تو نہ دیں۔ پڑھیں اللہ کیا کہہ رہا ہے…… ’(اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟‘ (المائدہ۔ 50)
اللہ ہماری معیشت کا لائحہ عمل طے کرچکا۔ اس سے ہٹ کر دنیا بھر کی دانشوریاں، جاہلیت کی ٹامک ٹوئیوں اور بدنصیبی کے دھکوں کے سوا کچھ نہیں۔ سودی معیشت پوری دنیا کو دیمک بن کر چاٹ رہی ہے۔ بڑے بڑے ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔ انہی 
آیات کے تسلسل میں اللہ پھر یہ بات دہراتا ہے جو وہ پہلے بھی سمجھا چکا ہے۔ ’اے لوگو جو ایمان لائے ہو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے۔ یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے‘۔ (المائدہ۔ 51) ان کی باہمی رفاقت اظہر من الشمس ہے۔ پھر انہی میں عالمی منافق وفاسق گماشتے زلمے خلیل زاد کی مانند اس ٹولے کا حصہ اور انہی کے ایجنڈوں کو (مسلم نام کا دھوکہ دیتے ہوئے) آگے بڑھاتے ہیں۔ پاکستان کو متزلزل کرنے کا جو کھیل عمران خان کو اٹھانے، بٹھانے، چکر دینے، شدید معاشی بحرانوں میں کروڑوں، اربوں کی افراتفریاں مچانے کا ہے وہ اسی عالمی ٹولے کی ملی بھگت ہے۔ افغانستان سے ذلیل ورسوا ہوکر نکلنے والے اب پاکستان کے درپے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان کا گلوبل فائر پاور میں دنیا میں بڑے ممالک کو پیچھے چھوڑکر ساتویں عسکری طاقت بن جانا شدید تکلیف کا باعث ہے۔ چنانچہ سود میں لتھڑے قرضے دینے کو آئی ایم ایف سسکانے کو مزید شرطیں عائد کر رہا ہے۔ ذلت آمیز، قومی خودمختاری، دفاع پر ضرب لگانے کو یہ فرمائش کہ دور مار میزائیلوں کی رینج کم کر دی جائے۔ نیز انہیں یکایک ’انسانی حقوق‘ مخدوش نظر آنے لگے۔ یہ پتھر پھینک کر لہریں گنتے ہیں۔ اگر ہمارا ردعمل سخت ہوتو ڈنڈا چھوڑکر (گاجروں والی) خوشامد، تھپکی پر اتر آتے ہیں۔ کہانی وہی ہے کہ آپ کتنے سیکولر بن کر کیوں نہ دکھائیں، اللہ کا فرمان اٹل ہے کہ یہ کبھی ہمارے دوست، خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ پوری اسلامی تاریخ اس پر گواہ ہے۔ خلیل زاد زلمے یکایک پاکستان کو مشورے دینے، عمران خان سے ہمدردی کے جذبات بگھارنے درمیان میں کیوں آن ٹپکا؟ افغانستان سے رد ہوکر ہمیں یہ حضرتِ ناصح ہدایات جاری فرما رہے ہیں؟
عمران خان کا پچھلا دور ایمپائر کی انگلی کے اشاروں پر پھلا پھولا۔ اب وہ عدلیہ کی گود میں بیٹھے انگوٹھا چوس رہے اور ضمانتوں کی نت نئی لالی پاپ کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ انوکھے لاڈلے کی فتوری یوتھی فورس پیٹرول بموں سے لیس پولیس کے چھکے چھڑا رہی ہے۔ لاقانونیت پر پلی بڑھی یہ قوت اگر کرسی دوبارہ پا لے تو آئین قانون ضابطے انصاف کا نام ونشان باقی نہ رہے گا۔ ملک میں جتھوں کی زورآوری قوم عاد کی یاد تازہ کیے دیتی ہے۔ ساری لاٹھیاں، ساری بھینسیں انہی کی۔ عدالتی فیصلے، جو عوام کے لیے بیس سال لگا دیتے ہیں، یہاں کھٹاکھٹ، دھڑادھڑ، ریلیف دینے کا سماں دکھا رہے ہیں۔ ہماری مضحکہ خیز سیاست اور نتیجتاً معیشت کا حشر دیکھیں۔ ہمسایہ جنگوں سے ادھیڑا ملک افغانستان ملاحظہ ہو۔ ہمارے ہاں شرح مہنگائی 31فیصد اور ان کے ہاں 5 فیصد ہے۔ (ڈاکٹر فرخ سلیم،ڈان: 12مارچ) افغان طالبان سودی قرضوں اور ان کی حاجت مندی سے بے نیاز ہیں۔ وزراء، اعلیٰ حکام، افسران کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔ عوام اور ’اشرافیہ‘ میں سہولیات کے حوالے سے کوئی تفاوت نہیں۔ ان کی اشرافیہ، اخلاق وکردار، خدا خوفی، خدا شناسی کی بنا پر اشرف ہے۔ مال ودولت کی لوٹ مار اور عوام کی گردن جوتے کی نوک پر رکھنے والی ’اشرافیہ‘ نہیں ہے۔
پاکستان میں عالمی اسٹیبلشمنٹ افراتفری قائم رکھنا چاہتی ہے۔ اسے یہ خوف ہے کہ پاکستان کی رگوں میں سوئی ایمانی حمیت اگر جاگ اٹھی تو افغانستان کے ساتھ مل کر دنیائے کفر کے لیے مصیبت کھڑی کر دے گی۔ نوجوان نسل کو پی ایس ایل، نجی مخلوط تعلیمی اداروں اور عورت مارچ میں مست رکھو۔ غرباء تنگ آمد بجنگ آمد۔ یا چرس بھنگ پی کر غم غلط کریں گے یا چوریاں ڈاکے، خودکشیاں کریں گے۔ غیور، صاحبِ ایمان، نظریہ پاکستان کے لیے جان لڑانے والے نوجوان عقوبت خانوں میں جھونک دیے گئے۔ کچھ وہ جو گوانتامو والوں نے تو رہا کردیے، پندرہ، بیس سالوں کے بعد، لیکن پاکستان شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری میں ٹس سے مس نہ ہوا۔ بڑے بڑے علماء اور شیوخ، حفاظ، صالح نوجوان جوانیاں قید میں گھلا بیٹھے۔ کتنے بیماریوں فاقوں سے منزل مراد پا گئے۔ یہی عدالتیں جو عیش کوش طبقے پر اتنی مہربان اور لٹو ہوئی جاتی ہیں، کوئی ازخود نوٹس……؟ اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی! انصاف اور قانون کی بالادستی کہیں تو دکھائی دے۔
اس بے ڈھب نظام زندگی سے ہٹ کر آئیے جنت کی مہک لیے آتی بہار کے استقبال سے خود کو شادکام کریں۔ پوری دنیا پر اللہ کی رحمت کے در وا کر دینے والا موسمِ بہار امت کی اہمیت، فضیلت، خش بختی اور ذمہ دارانہ حیثیت پر مہر ثبت کرتا ہے۔ ہلالِ رمضان، اندر کے باغی (نفس) کو مطیع کرنے کا مہینہ لے کر آتا ہے۔ اللہ اسے ہم پرامن وایمان، سلامتی واسلام کے ساتھ لائے۔ ہم سے زیادہ اس وقت کون اس کا محتاج ہے! جب غارِ حرا میں رمضان المبارک کی لیلۃ القدر میں یہ چاند آسمانی ربانی پیمانے لیے آیا، تو انسانیت کی تاقیامت شفایابی، امن ایمان سلامتی واسلام کا سامان کرگیا۔ تاریکیاں چھٹ گئیں۔
آج ہم پر یہی روشنی اور بہار آنے کو ہے۔ گھپ اندھیروں کو چیرکر راہِ حق کی روشنی دل ونگاہ میں بھر دینے کو۔ مگر: فیضِ فطرت نے تجھے دیدہئ شاہیں بخشا، جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش!
رمضان قربِ الٰہی، سجدوں، دعاؤں، مغفرت طلبی کی روحانی لذت سکینت کا مہینہ ہے۔ اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، امت اور اس کے جوانوں کے لیے آئیے دل کی روشنی مانگ لیں۔ دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب، آنکھ کا نور دل کا نور نہیں! قرآن بتا چکا: ’آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘ کالی اسکرینوں نے، غضِ بصر سے محرومی نے ہمارے سینوں میں انتشار، افتراق، اضطراب، فسق وفجور، نفاق بھر دیا۔ صرف جلوؤں کے ہجوم سے غض بصر نہیں، دنیا بھی نامحرم ہے۔ حب دنیا کی اسیری نے ہمیں اجاڑا ہے۔
رمضان قرآن کا مہینہ ہے جس سے دلوں کی سبھی امراض کی شفا ہے۔ انسان کی شخصیت سازی میں صبر، ضبطِ نفس، ایثار، عجز، احساسِ جوابدہی، بنیادی اوصاف ہیں۔ قیادت کے لائق بنانے کو روزے کے ذریعے پوری امت سالانہ تربیت سے گزاری جاتی ہے۔ اسے برتنے والوں نے 23سالوں میں دنیا کی تقدیر بدل ڈالنے والی عظیم سپاہ بن کر تین براعظموں پر اللہ کی حکمرانی قائم کی۔ ہمارا رمضان پکوڑوں، دہی بڑوں، بریانی، باربی کیو بھری افطار پارٹیوں سے نبردآزما ہوتے گزر جاتا ہے۔ شیطان بندھنے سے پہلے پوری تیاری کروا جاتا ہے شعبان ہی میں۔ اللہ ہمیں حرص وہوس سے محفوظ رکھے اور ماہِ مبارک کے لمحے لمحے سے کماحقہ فیض یاب ہونے کی توفیق اپنی شانِ کریمی سے عطا فرمائے۔ پاکستان کے احوال سنوار دے۔ (آمین)