یٰسین ملک اور عمران خان

یٰسین ملک اور عمران خان

سچ پوچھیں تو آج کچھ بھی لکھنے کو دل نہیں کر رہا۔ عمران خان کا لانگ مارچ کتنا کامیاب ہے اور کتنا ناکام اس پر بھی تبصرہ کرنے کا من نہیں کہ یہ تماشا تو اب زندگی کا حصہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جس دن ہم نے مل کر دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھانا تھا اس دن ہم اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ تیری نہیں میری باری ہے کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو غدار اور ملک دشمن ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں تحریک انصاف سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ لانگ مارچ یا جلسہ آپ 24 مئی کو کر لیتے یا 28 مئی کو اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ جو تیاری آپ نے آج کی ہے اس کا کچھ نہ بگڑتا اور آج مل کر یٰسین ملک کے لیے دنیا میں آواز اٹھاتے مگر صاحب آپ کا اپنا ایجنڈا تھا۔ آپ نے پوری کوشش کی کہ اس مسئلہ پر قوم کو تقسیم کر دیا جائے۔ کشمیر آپ کے ایجنڈے میں کبھی شامل نہیں رہا اور آپ اپنے زیر انتظام علاقے کو ایک مفتوحہ علاقے کے طور پر چلاتے رہے ہیں۔ وہاں کے سابق وزیراعظم عبدالقیوم نیازی نے آپ کی سیاست اور کشمیر سے وفاداری کو دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ اس نے کشمیر کے خزانے کی کنجی پی ٹی آئی کے وفاقی وزیروں کو دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا قصور یہ بھی تھا کہ اس کے پاس ہیلی کاپٹر نہیں تھا کہ وہ آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتا۔ اس کا تعلق ایک متوسط طبقے سے تھا اور اے ٹی ایم مشین کی خصوصیات سے عاری تھا۔ آج پورا میڈیا تحریک انصاف کے جلسہ اور لانگ مارچ کی خبروں سے بھرا ہوا تھا۔ آپ کس کے ایجنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک اور ان کی بیٹی رضیہ سلطانہ نے پریس کانفرنس میں روتے ہوئے آپ سے گذارش کی تھی کہ دو دن کے لیے اپنے لانگ مارچ کو ملتوی کر لیں اور اس کے ساتھ مل کر یٰسین ملک کو دی جانے والے سزا پر بھرپور احتجاج کریں۔ وہ تو شاید یہ بھی سمجھ رہی تھیں کہ آپ یٰسین ملک کے دوست ہیں اس لیے ان کی بات پر کان دھریں گے مگر انہیں کیا پتہ کہ مہاتما کسی کا دوست نہیں ہے۔ وہ تو اپنے ساتھ سائے کی طرح رہنے والے شخص کے جنازے میں شریک نہیں ہوا تھا۔ 
ہم کو ان سے ہے وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
خان صاحب معاف کریں آپ کوئی انقلاب نہیں لا رہے بلکہ آپ قوم تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ آپ چند ہزار لوگوں کو ساتھ لے کر اسلام آباد میں داخل بھی ہو جائیں تو کیا حکومت تبدیل ہو جائے گی۔ کیا حکومتوں کو تبدیل کرنا اتنا آسان ہے۔ اگر ایسا ہے تو کوئی بھی جتھہ دارالحکومت کو یرغمال بنا سکتا ہے۔ آپ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں تو حکومتوں کی تبدیلی کے مجوزہ طریقہ کار کو اپنانے کا سوچیں۔ آپ کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ آپ کو پارلیمانی جمہوریت اور جمہوری روایات کا کوئی علم نہیں۔ آپ اپنی انا کے اسیر ہیں اور اس کی تسکین کے لیے بے گناہ لوگوں کو موت کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ افسوس آپ نے قانون اور آئین کی سربلندی کی بجائے جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے اپنی توانائی صرف کی اور آپ میں اسمبلیوں کو آگ لگا دوں گا کا نعرہ لگانے والے کے مقلد بن گئے۔ کبھی کبھی یہ کیوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ محض کٹھ پتلی 
ہیں اور شیخ رشید آپ کو اپنی انگلی کے اشارے پر نچا رہا ہے۔ آپ کے اردگرد ظل سبحانی کا اقبال بلند ہو کے نعرے لگانے والے آپ کی ہر بات پر سبحان اللہ کہہ کر دم بھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ کی شخصیت کی طرح آپ کے آئیڈیلز بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور آج کل آپ بھٹو کی مثالیں دے رہے ہیں۔ بھٹو بننا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے تاریک کوٹھریوں میں زندگی گذارنا پڑتی ہے۔ کوڑے کھانا پڑتے ہیں، اپنے بچوں کو قربان کرنا پڑتا ہے اور پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑتا ہے۔ یہ سب آپ کے بس کی بات ہے اور نہ آپ کے کارکن اس کے لیے تیار ہیں۔ ان کو تو آپ نے گالی گلوچ کرنے اور سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی کی تربیت دے رکھی ہے۔  اس لیے جعلی بھٹو بننے کی کوشش نہ کریں۔ آپ خفیہ راستوں سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے رہے ہیں اور اب بھی آپ ان قوتوں کو آوازیں دے رہے ہیں جنہوں نے آپ کو کندھوں پر بٹھا کر اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس تک پہنچایا تھا۔ آج آپ کی طاقت کا بھرم کھل جائے گا اور قوم یہ دیکھ لے گی کہ کتنے لوگ آپ کی کال پر اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ پنجاب نے آپ کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور خونی انقلاب کے نعرے پر کان نہیں دھرے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ اور آپ کے کارکن گالی کے بعد اب گولی چلانے پر اتر آئے ہیں۔ آج تحریک انصاف کے ایک رہنما کے گھر سے اسلحہ کے بڑی کھیپ برآمد کی گئی ہے اور تحریک انصاف سے وابستہ ایک شخص نے پولیس پر فائرنگ کر کے ایک کانسٹیبل کو شہید کر دیا۔ اس کانسٹیبل کی ہلاکت پر آپ کی جماعت اور آپ کے اتحادیوں کا ردعمل بھی افسوس ناک تھا۔ آپ نے حفاظت خود اختیاری کے تحت پولیس کانسٹیبل کے قتل کو جائز قرار دیا۔ عمران خان کو سیاست دان سے زیادہ ایکٹر ہونا چاہیے تھا۔ وہ اداکاری کے جوہر دکھاتے رہتے ہیں آج بھی انہوں نے عوام کے ساتھ چلنے کے بجائے شاہ رخ خان کی طرح ہیلی کاپٹر سے لانگ مارچ میں انٹری دی۔ ان کے چاہنے والے اس ادا پر واری واری ہو رہے ہیں کہ کیا دبنگ انٹری ہے۔ عمران خان کی سیاست ڈیل اور ڈھیل کی مرہون منت رہی ہے اور اس سے آگے کچھ نہیں۔ آج لوگوں کے بچے سڑکوں پر ہیں اور ان کے بچے گولڈ سمتھ کے محل میں پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آج ان کے بچے بھی اس حقیقی آزادی مارچ میں شریک ہوتے جسے آپ جہاد سے تعبیر کر رہے ہیں۔
جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں عمران خان ابھی تک اسلام آباد نہیں پہنچے اور بھارت میں یٰسین ملک کو جو سزا سنائی جائے گی اس کا اعلان ابھی تک محفوظ ہے۔  بھارتی عدالت نے 19 مئی کو انہیں مجرم ٹھہرا دیا تھا اور فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ یہ فیصلہ آج سنایا جانا ہے مگر پاکستان میں اس پر بات نہیں ہو رہی بلکہ عمران خان کے لانگ مارچ پر بحث ہو رہی ہے۔ عمران خان یہاں آزادی سے گھوم رہا ہے اور یٰسین ملک ایک لمبے عرصہ سے تہاڑ جیل میں زندگی گذار رہا ہے۔ انقلاب لانے کے لیے بنی گالہ کے نرم گرم اور مخملی بستروں پر سونے کے بجائے کال کوٹھریوں میں زندگی گذارنا پڑتی ہے۔ آپ انقلاب کی بات نہ کیا کریں کہ یہ آپ کی شخصیت کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔
یٰسین ملک ہمیشہ سیاسی جدوجہد کرتے رہے۔ انہوں نے ہمیشہ پرتشدد کارروائیوں کی مخالفت کی اور کشمیر کی آزادی کے نعرے کو بلند کیا۔ وہ بھی چاہتے تو سب کچھ چھوڑ کر اقتدار میں آنے کی سیاست کا حصہ بن جاتے مگر ان کا راستہ پر خار وادیوں سے گذرتا تھا۔ آج انہیں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنائے جانے کا امکان ہے مگر وہ حریت پسندوں کے لیے ایک نڈر رہنما کے طور پر زندہ رہے گا۔ تہاڑ جیل میں اس سے پہلے مقبول بھٹ کو تحریک آزادی کشمیر کی پاداش میں پھانسی دی گئی تھی اور آج ایک بار پھر کشمیر کے بطل حریت کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے انصاف کی بلی چڑھایا جائے گا۔ جب بھی کشمیر کی آزادی کی تحریک لکھی جائے گی مقبول بھٹ اور یٰسین ملک کا نام سب سے اوپر ہو گا۔ عمران خان صاحب تاریخ میں سنہری حروف سے نام لکھوانے کے لیے اپنی انا، ذاتی اور سیاسی مفادات قربان کر کے قومی مفادات کو اہمیت دینا پڑتی ہے۔ آپ بھی ان اصولوں پر کاربند ہوں آپ کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مگر اس وقت آپ کا کردار ایک ضدی بچے کا ہے جس سے کھلونا چھین لیا گیا ہو اور وہ کھلونا بھی کسی دوسرے کا ہو۔ آپ نے قوم میں یک جہتی پیدا کرنے کے بجائے قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ حریت پسند بننا اور حریت پسندی کے نعرے لگانے میں بہت فرق ہے اور فرق جتنی جلد آپ کو سمجھ آ جائے اچھا ہے۔ باقی رہی لانگ مارچ کی بات تو یہ ہوتے رہتے ہیں اور یہ ایک سیاسی سرگرمی ہے۔ بہتر ہے اسے سیاسی سرگرمی کے طور پر لیں اور اگر آپ اسلام آباد میں ڈیرے ڈال کر ہر روز رونق میلہ لگانے کے شوقین ہیں تو یہ شوق بھی پورا کر لیں۔

مصنف کے بارے میں