انسداد کرپشن کے ادارے اب صرف مصنوعی اور نام نہاد ہو کر رہ گئے ہیں، سینیٹر فرحت اللہ بابر

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ کرپشن کے معاملے میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مقدس گائیں کو احتساب سے چھوٹ ہے اور اسی سلسلے میں تجاراتی کرپشن کی طرف سے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں اور احتساب کو سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے

انسداد کرپشن کے ادارے اب صرف مصنوعی اور نام نہاد ہو کر رہ گئے ہیں، سینیٹر فرحت اللہ بابر

لاہور: پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ کرپشن کے معاملے میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مقدس گائیں کو احتساب سے چھوٹ ہے اور اسی سلسلے میں تجاراتی کرپشن کی طرف سے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں اور احتساب کو سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور کرپشن کے اصل مسئلے سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور انسداد کرپشن کے ادارے اب صرف مصنوعی اور نام نہاد ہو کر رہ گئے ہیں۔ و ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے احتساب کے موضوع پر منعقد کئے گئے ایک سیمینار میں خطاب کر رہے تھے جو لاہور میں ہوا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ آزاد ی سے لے کر اب تک انسداد دہشتگردی کے اداروں اور نیب کی تاریخ مقدس گائیں، سیاسی انتقام اور من پسند لوگوں کو احتساب سے چھوٹ دینے کی تاریخ ہے۔ کرپشن صرف مالی کرپشن نہیں ہوتی بلکہ اختیارات کا ناجائز استعمال، من پسند افراد کو نوازنا اور مواقعوں پر اجارہ داری قائم کرنا بھی کرپشن ہے۔ کارگل کے محاذ پر جو ایڈونچر کیاگیا، اسامہ بن لادن کو پناہ دینا اور نیوکلیئر ہتھیاروں کو دوسرے ممالک کو فروخت کرنا بھی کرپشن ہے لیکن اس کی کبھی بھی تحقیقات نہیں کی گئیں اور ذمہ داروں کو کبھی بھی قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اداراتی کرپشن کو سرے سے سمجھا ہی نہیں گیا۔ انہوں نے دفاعی ضروریات کے لئے زمین حاصل کرکے اس میں بدعنوانیوںپر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کیسوں کو صرف ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ختم کر دیا گیا اور نہ ان کی تحقیقات کرائی گئیں اور نہ ہی کسی کا احتساب کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن ایک سماجی مسئلہ ہے اور اسے قوانین کے ذریعے مکمل طور پر کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلے کو عوام میں تعلیم عام کرکے اور ان کے اندر اعلیٰ اقدار پیدا کرکے ہیں حل کیا جا سکتا ہے۔ کرپشن کے خلاف جنگ اس وقت کامیاب نہیں ہوگی جب تک کہ تمام لوگوں کا احتساب نہ کیا جائے اور کسی کو مقدس گائے نہ سمجھا جائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ججوں، جنرلوں اورصحافیوں کا احتساب اسی طرح سے کیوں نہیں کیا جا سکتا جس طرح سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کیا جاتا ہے؟

یہ کہنا کہ چند اداروں میں ان کا اپنا احتساب کا نظام موجود ہے اصل میں ایک مذاق ہے۔ اس سے اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ادارے خود کو احتساب سے بچا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کے لئے سب سے موثر طریقہ شفافیت ہے اور کسی چیز کو بھی راز میں نہ رکھنا ہے اور یہ معلومات تک رسائی کے لئے قانون سازی کے ذریعے ہو سکتا ہے اور اس بارے میں قانون کی توثیق دو سال قبل سینیٹ اطلاعات کی کمیٹی نے کردی تھی لیکن یہ قانون نہیں بن سکا اور اس کی بجائے موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ زیادہ سے زیادہ معلومات افشا کرنے کے اصول کے بجائے چھوٹ دے دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں کہا گیا ہے کہ سیاسی طور پر کام کرنے والے ادارے نیب کو ختم کرکے ایک آزاد احتساب کمیشن بنایا جائے گا اور میڈیا کو اطلاعات تک رسائی ہوگی اور فوجی اور عدلیہ کے افسران بھی پارلیمنٹیرینز کی طرح اپنی آمدنی اور اثاثوں کو سالانہ بنیاد پر ظاہر کریں گے تاکہ انہیں عوام کے سامنے قابل احتساب بنایا جا سکے۔ میثاق جمہوریت میں ایک سچائی اور مفاہمت کا کمیشن بنانے کی تجویز بھی دی گئی ہے تاکہ تشدد، قید، ریاستی مقدمات اور سیاسی انتقام کے لئے احتساب کے عمل کو تسلیم کیا جائے اور اس سے متاثرہ افراد کی دادرسی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سچائی اور مفاہمت کے کمیشن کو بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سیمینار سے ایچ آر سی پی کے سیکریٹری جنرل آئی اے رحمن، سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ، سابق اے جی سلمان راجہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔