مولانا کے رہنما اصول

مولانا کے رہنما اصول

عالمی اور مقامی کھلاڑیوں کے دباﺅ سے نکلے بغیر جو بھی پالیسیاں بنائی جائیں گی ان سے کوئی بڑی تبدیلی تو دور کی بات معمولی سی پیش رفت بھی ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سیاسی ماحول میں مولانا فضل الرحمن وہ شخصیت بن کر سامنے آئے ہیں جو خرابی کو نہیں بلکہ اس کی جڑ اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے ذہن کی طرح ان کا موقف بھی واضح ہے۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہونے والے اجتماعات میں وہ بار بار کہتے آرہے ہیں کہ سب سے پہلے تو ہمیں موجودہ سسٹم سے آزادی حاصل کرنی ہے ۔ شفاف انتخابات اور دیگر چیزیں بعد کی باتیں ہیں ۔ مولانا نے کھل کر کہا ہے کہ ہمیں امریکی کیمپ سے نکل کر چین کی جانب جانا ہوگا ورنہ خود مختاری اور خوشحالی کا حصول ممکن نہیں ۔ مولانا نے انہی دنوں تلخ لہجے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ باقی سب ہار مان بھی لیں جے یو آئی کسی صورت اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مولانا کا اشارہ اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن کی جانب ہے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن فیصلہ کن تحریک چلانے سے ہچکچا رہی ہے۔ اسے شاید لوکل اسٹیبلشمنٹ کی تو پہلے جیسی پروا نہیں مگر امریکا ، مغرب اور عرب ممالک کو ناراض نہیں کرنا چاہتی کیونکہ سی پیک ، کشمیر اور آئی ایم ایف جیسے معاملات پر اس حکومت کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔ یہی خدشات ہیں کہ جس کے سبب اب عام لوگوں نے اپوزیشن کو مطلبی قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید شروع کردی ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ سب لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ملک میں کسی قسم کی تحریک کے لئے حالات سازگار ہیں یا نہیں ۔ اس حوالے سے رائے عامہ کیا ہے اسکا ہر کسی کو علم ہے ۔ ایک حساس ایجنسی کے سابق افسر سے ان کی رائے پوچھی گئی تو انہوں نے کہا آج تحریک شروع ہوجائے تو اسے روکنے والا کوئی نہیں ۔ یہی زمینی حقیقت ہے مگر اصل مسئلہ اپوزیشن پارٹیوں کا تذبذب ہے ۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کی فیصلہ سازی میں اہم کردار رکھنے والی شخصیت سے ملاقات ہوئی تو یہی تاثر ملا کسی قسم کا احتجاج کرنا تو کجا ان کو حکومت میں آنے کی بھی کوئی جلدی نہیں ۔ ان کو ملکی اور عوامی مسائل کا حوالہ دیا گیا تو کہنے لگے ہم کیا کرسکتے ہیں ۔جب بھی کوئی سویلین حکومت آئے دو، تین سال میں اسے تنگ کرکے گرا دیا جاتا ہے ۔بہتر ہوگا کہ اس مرتبہ تبدیلی کا شوق پورا ہونے دیا جائے ۔ دوسری جانب یہ بھی نظر آرہا ہے منصوبہ ساز اگلے عام انتخابات کے نتائج کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کے لئے ہر طرح اقدامات کررہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن نے اس حوالے سے الزام لگایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عالمی طاقتوں کو خوش کرنے کے ای وی ایم ، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے جیسے قوانین منظور کرائے ۔ تاکہ اگلا حکومتی سیٹ اپ بھی اسکی مرضی کے مطابق ہی بنے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں پر دانشوروں ، پروفیشنلز ، سول سوسائٹی اور عوام کا روعمل کیا ہے اس کی ایک جھلک پچھلے ہفتے لاہور میں ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں دیکھی گئی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی موجودگی میں انصاف کنٹرول کرنے والے عناصر کا ذکر اتنے زور و شور سے کیا گیا کہ خود ان کے لئے مشکل صورتحال پیدا ہوگئی ۔ اس کانفرنس کے دوران ہی ”لے کر رہیں گے آزادی “ کے نعرے لگ گئے ۔ یہ بات تو ماننا ہوگی کہ پی ڈی ایم کا بیانیہ عام لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔ وہ بیانیہ یہی ہے کہ جمہوریت کو ہر طرح کے دباﺅ سے آزاد کیا جائے اور ملک کو مسائل میں دھکیلنے والے عناصر کی نشاندہی کی جائے ۔ مولانا فضل الرحمن تو اس حوالے سے ٹھوس موقف رکھتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کھل کر سیاست کرے ، جوڑ توڑ میں حصہ لے ، دوسروں اداروں کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے اور ساتھ ہی یہ خواہش بھی رکھے کہ اس کا نام نہ لیا جائے ۔ 2019میں پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ میں جلسے میں نواز شریف نے نام لے کر جو کھلبلی مچائی اس کے اثرات آج بھی رنگ دکھا رہے ہیں۔ یہی مرحلہ تھا جب اپوزیشن کو دن رات برا کہنے کی ڈیوٹی کرنے والے دفاعی تجزیہ کار وزیر اعظم عمران خان کو کوسنا شروع ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپوزیشن کو مذاکرات میں مصروف نہ کرکے حساس اداروں کے سربراہوں کے لئے مسائل کھڑے کردئیے ہیں۔ 
پی ڈی ایم کا بنیادی موقف بھی یہی تھا کہ خرابی کے ذمہ دار عمران خان نہیں بلکہ ان کو لانے والے ہیں۔ پی ڈی ایم کی تحریک 2019 میں ہی ثمر آور ثابت ہوسکتی تھی مگر اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ ہتھیار پیپلز پارٹی نے چھرا گھونپ دیا ۔ چلیں کم ازکم اب تو یہ طے ہوچکا کہ پیپلز پارٹی ، ق لیگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست کرے گی۔ آصف زرداری اینڈ کمپنی عرصہ پہلے ہی جان چکی کہ ہائبرڈ سسٹم بدل بھی جائے اور سو فیصد شفاف انتخابات ہوں تب بھی انہیں ایک خاص حد سے زیادہ فائدہ نہیں ۔ سو ان کی کوشش یہی ہے کہ ملک موجودہ نظام کے تحت ہی چلتا رہے اور ان کا کوئی بڑا داﺅ لگ جائے ۔ ادھر مسلم لیگ ن میں بھی ایک بہت بڑا گروپ ہے جو ایسی ہی نوکری کی تلاش میں ہے ۔ ان کو اتنا بھی یاد نہیں کہ ابھی 2013 میں ان کی اچھی خاصی کارکردگی کے باوجود حکومت کی کیسی درگت بنائی گئی تھی ۔ آئندہ جب بھی چانس ملا تو ماضی کے برعکس سلوک کیسے ہو گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح مارشل لا لگانے والے کہتے ہیں اور کوئی راستہ نہیں تھا اس لئے ہمیں آﺅٹ آف باکس حل نکالنا پڑا عین اسی طرح بحالی جمہوریت کے لئے بھی سیاسی جماعتوں کو بھی آﺅٹ آف باکس حل کی جانب جانا ہوگا ۔ یہی بات مولانا فضل الرحمن بار بار بتاتے آرہے ہیں کہ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں ۔ جو لوگ تقرر ، تبادلے سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ پتہ نہیںکیسے بھول گئے کہ پاشا کے بعد ظہیر اسلام آئے تو “تاریخی رونق “ لگی ۔ پھر آج کا دور دیکھ لیں پوری قوم اور ادارے تبدیلی سے ” فیض یاب “ ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں ۔ پوری دنیا میں سیاستدانوں کو ہی قوم کی قیادت کرنا ہوتی ہے۔ اگر کوئی جرا¿ت مندی کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا تو پھر اسے حقیقی لیڈر کیسے مانا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا شکنجہ اب ہر شہری اپنی گردن میں کسا ہوا محسوس ہورہا ہے اور یہ اذیت رکنے کا دور دور تک کوئی نام ونشان تک نہیں۔ہمارے مستقل حکمران، انگریز سرکار سے وراثت میں ملی ” لڑاﺅ اور حکومت کرو“ کی پالیسی کے تحت قوم کو تقسیم کررہے ہیں ۔ جیسے اگلا الیکشن ہونے سے پہلے ہی متنازع بنا دیا گیا اس سے سیاسی کشیدگی میں ہرگز کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ پورے ملک کا ماحول خراب ہوگا ۔ اس بگڑتے ماحول کو جواز بنا کر ہائبرڈ سسٹم کی جگہ مزید غیر آئینی تجربہ کرنے کے امکانات ملک کی معاشی بدحالی کے سبب سکڑ کر نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں ۔ اپنے اقتدار کے حوالے سے پریشان بیٹھے وزیر اعظم اور وزرا کو ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر پیدا ہونے والے مسائل سے نکلنے کے بعد پھر سے یہ امید ہوگئی ہے کہ اگلا الیکشن بھی ان کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا ۔ یہی وہ خدشہ ہے جو سیاسی جماعتوں کو ابھی سے سخت پوزیشن لینے کی راہ دکھا رہا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اسی موڈ کا ظہور ہوا ۔ بات پھر وہیںہے کہ عوامی حقوق کی بحالی اور وسائل کی مساوی تقسیم کے لئے بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والے عوامی شعور کو کسی تحریک کا حصہ بنانے کے لئے کسی سیاستدان کو میدان میں آکر لیڈ کرنا ہوگا۔ پی ڈی ایم میں مسلم لیگ ن کے سوا باقی تمام جماعتیں فیصلہ کن احتجاج کے لئے تیار ہیں ۔ اور بیرونی دباﺅ کو بھی خاطر میں نہیں لایا جارہا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی تازہ ترین تقریروں میں وہ تمام رہنما اصول پھر سے بیان کردئیے ہیں ۔ معاملہ اصل فریقوں کے درمیان ہی طے ہوگا ۔ شرط یہ ہے کہ متاثرہ فریق دوسرے کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کردے یا پھر اسے اسکے اصل کام تک محدود کردے ۔ ان میں سے بھی دوسری بات پہلے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے ورنہ وطن عزیز کبھی گرداب سے نہیں نکل پائے گا ۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے اپنے انتقال سے قبل یہ بات بار بار زور دے کر کہی تھی کہ حق اور انصاف سڑکوں پر آئے بغیر نہیں ملے گا ، ان کا اشارہ نواز شریف ، مریم نواز کے انہی مقدمات کی جانب تھا جس سے حوالے سے اب ثبوت سامنے آنا شروع ہوگئے کہ فیصلے کیسے کرائے گئے ، ویسے ان کرداروں کا پہلے ہی سے سب کو علم ہے ، بات صرف اتنی ہے کہ ان کو قانون کے کٹہرے میں کیسے لایا جائے ، وکلا کا حامد خان گروپ زیادہ شدت سے ان عناصر کے احتساب کا مطالبہ کررہا ہے ، اپوزیشن جماعتوں کی مصلحت کوشی سے باتیں صرف باتیں نہ رہ جائیں ، ویسے اگلا الیکشن موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے مطابق ہو گیا تو سیاسی جماعتوں سے کہیں زیادہ نقصان ریاستی اداروں اور ملک کو ہوگا ، تجزیہ کار یہ بات تسلیم کرتے ہیں اس وقت مولانا فضل الرحمن کو ملک بند کرکے اپنے مطالبات منوانے کے لئے عملًا کسی اور پارٹی کی ضرورت نہیں۔ لاکھوں منظم اور نڈر کارکن اشارے کے منتظر ہیں ۔ وسائل کی بھی کمی نہیں۔ مولانا فضل الرحمن صرف جرات کا پیکر ہی نہیں صاحب بصیرت بھی ہیں ۔ وہ چاہتے کہ دینی سیاسی جماعت کی تحریک کامیاب ہوگئی تو عالمی حالات کے تناظر میں بعدازاں مذہب بیزار حلقوں کے ایما پر ملک کے لئے بیرونی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ رہے گا۔ اس لئے احتجاج کو مکمل طور سیاسی رنگ دیا جانا بہتر ہوگا ۔ ثاقب نثار آڈیو لیکس سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی سرکاری اداروں کے افسر کس طرح سے آئین و قانون کو روندتے ہوئے عدالتوں تک کو بھی بری طرح سے استعمال کررہے ہیں۔ جب نوسربازی اس سطح تک پہنچ چکی ہو تو محض باتوں اور مذمت سے کسی بہتری کی امید رکھنا ممکن ہی نہیں رہتا ۔ نوسربازی سے یاد آیا بھارت نے ابھی نند ن کوویر چکرا کا ایوارڈ دے کر اپنے عوام کو ہی نہیں پوری دنیا کو چکر دینے کی کوشش کی ہے ۔ 2019 کے واقعات میں پاکستان کا کوئی طیارہ گرا نہ ہی کسی قسم کا کوئی اور نقصان ہوا۔ امریکی حکام بھی اس سے تصدیق کر چکے ہیں۔ ریکارڈ درست رکھا جانا ضروری ہے ۔ 26 فروری کو بھارتی طیاروں جن میں میراج 2000اور سخوئی شامل تھے پاکستانی حدود میں چوروں کی طرح سے آئے اور فیول ٹینک گرا کر چلے گئے ۔ اگلے روز پاک فضائیہ نے جوابی کارروائی کی اپنی حدود میں بھارتی مگ 21 مار گرایا اور پائلٹ ابھی نندن کو پکڑ لیا۔اسی روز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا ہی ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا ۔ ابھی نندن کی گرفتاری اور رہائی پر دونوں ملکوں نے متضاد موقف اختیار کرکے جشن منایا ۔ مگر اسی سال 5 اگست کو بھارت نے وہ کام کیا جو کوئی پچھلے 71 سال میں کرنے کی جرا¿ت نہ کر سکا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اپنا باقاعدہ حصہ بنا لیا۔ اس کے بعد سے اب تک سیز فائر ہے ۔ یہ واقعہ کسی بھی طرح سانحہ مشرقی پاکستان سے کم نہیں ۔ سقوط ڈھاکہ کی طرح اس پر بھی بحث ہوتی رہے گی ۔