یقین

یقین

یقین انسانی معاشرت کی اساس ہے، اسی کی بنیاد پر سماجی رشتے، تعلقات، کاروبار حیات، حتیٰ کہ نظریات اور مختلف مکتبہ فکر کھڑے ہیں۔ یقین نہ ہو تو کوئی بھی معاملہ، کوئی بھی بات محض جگالی وقت، لمحوں حتیٰ کہ الفاظ کا زیاں ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب، ادیان، عمرانی نظریات، سماجی رویے، معاشرت کی روایات دو باتوں پر متفق ہیں اور اس تفریق کو مٹانے سے ہر لحاظ سے انکاری ہیں وہ ہیں نیکی اور بدی سچ اور جھوٹ ان دونوں کے فرق پر سب متفق ہیں اور ایک یقین کے ساتھ انسانیت کے مروجہ و مسلمہ اصول ادیان کے تسلسل اور وحی خداوندی سماج اور معاشرت کی مسلسل ارتقائی مسافت طے کرتے ہوئے دین اسلام پر منتج ہوتے ہیں جس سے انکار کرنے والے کسی اور راستہ سے کسی اور نام سے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھ کر پہنچتے اسی تک ہیں باقی افکار کی دکانیں ہیں شعور کے بازار ہیں جو صدیوں سے 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں اور کھلے رہیں گے بقا اور ثبات خالق کے پیغام پر یقین رکھنے والوں کو ہی نصیب ہو گی یہی یقین نفس مطمئنہ کی تکمیل و منزل ہے۔ ہمارے دانشور دوست خواجہ جمشید امام بٹ چند سال پہلے ایک تقریر میں Nano second ایک سیکنڈ کا ایک اربواں حصہ کی تعریف کر رہے تھے جو مجھے آج بھی یاد ہے۔ دراصل انسان اپنی زندگی میں کائنات جو کہ اس کی دسترس میں ہو سکتی ہے کو دن رات پا لینے کی دوڑ میں ہے اور دوسری دوڑ نینو سیکنڈ سے فرار ہے جو زندگی کو موت میں بدل کر رکھ دیتا ہے اور یہ نینو سیکنڈ ہر سانس لینے والی مخلوق کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ کیا اس کا ان گنت چلتی رہنے والی سانوں کے دوران کبھی یقین ہوا ہے کہ یہ ہمیں لاکھوں سال بیت چکنے والے لوگوں میں شامل کر دے گا؟ بدھ جو بنیادی طور پر انسانیت کے پیرو تھے، ان کے خیال میں مذہب تفریق کرتا ہے یہی ان کا نظریہ ان کا مذہب بن گیا اور بدھ مت کہلانے لگے۔ Non beliver بھی ایک اصطلاح ہی تو ہے ورنہ نہ جانے ان کا حقیقی belief اور believe قانون و دین فطرت کے بیان کردہ اصولوں سے کتنا میل کھاتا ہو کہ مذہب کا کاروبار کرنے والے خود اس مذہب کے افکار کے اتنے عامل نہ ہوں جتنا ایک Non believer یعنی ملحد قانون قدرت کا پیرو ہو۔ پھر اللہ کے وحی کردہ ادیان و مذاہب کے پیرو تو یہودی، نصرانی، مسلمان اور ہزاروں سال کی تاریخ میں کیا کیا کہلائے جاتے ہیں مگر اساس یقین ہے۔ دین اور روحانی حوالے سے یقین ایک خیال، ایک سوچ اور گہرا غور اور پھر کایا پلٹ ثابت ہوا کرتا ہے ہمارے اسلاف اور انسانوں کے لامتناہی سلسلہ میں اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں اتنی کہ سوچ فکر اور غور نے پوری پوری قوم اور امت کی صورت اختیار کر لی۔ اللہ، اس کے فرشتوں، الہامی کتابوں، انبیا اور پیغامبر پر ایمان لازمی اجزا ہیں اور ہر اچھی اور بُری تقدیر کا مالک اللہ کو ماننا اور آخرت پر یقین!!! ذرا غور فرمائیے، اللہ تعالیٰ کے ہر بُری تقدیر کے مالک ہونے پر یقین ہے تو پھر سود و زیاں کا
شادیانہ اور سوز بے معنی ہے اگر آخرت پر یقین ہے تو پھر کس کی مجال ہے کہ کوئی ایسا فعل کر جائے جس کے Replay کا وہ متحمل نہ ہو مگر ہمارے ہاں بدنصیبی ہے اچھی اور بُری تقدیر کا مالک اللہ کا ہونا اور آخرت کا یقین عملی زندگی میں اعمال پہ اثر انداز کم کم ہی دیکھا گیا ہے۔ ہم قبرستانوں سے گزرتے ہیں، جنازے پڑھتے ہیں، اپنے پیارے سپرد خاک کرتے ہیں، روح و بدن جدا ہوتے دیکھتے ہیں مگر یہ یقین نہیں آتا کہ ایک دن ہم پہ بھی یہ لمحہ گزر چکا ہو گا ورنہ یہ چالاکیاں، عیاریاں، مکاریاں، دھوکہ دہیاں، زیادتیاں، طاقت کا استعمال، کمزور ماری، انسان دشمنی، جاندار دشمنی دور کی بات سرکار کریمﷺ نے تو دل آزاری کو کعبہ گرانے سے بڑا گناہ قرار دیا (مفہوم)۔ اور ہم پہنچ کر پوری جانفشانی اور تمام ذرائع و اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے دل آزاری کو بطور مشغلہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اللہ کے قرب کے تمام راستے انسانوں سے ہو کر جاتے ہیں اور اگر انسان کی دل آزاری کر دی تو راستے سے بھٹکے نہیں رخ بدل گئے۔ جبکہ جن کا ہمارے علما کے مطابق جنت میں داخلہ ممنوع ہے انہوں نے ساری دنیا کو Thank you اور Sorry سکھا دیا۔ مگر یہ دونوں لفظ ہماری شان اور انا کے خلاف ہیں۔ ارواح کے شہر جن کو ہم قبرستان کہتے ہیں داخل ہوتے ہی ’اسلام علیکم یا اہل القبور‘ کا کچھ تو مقصد ہو گا؟ کوئی تو جواب ہو گا!! کوئی ایک سوچ کوئی ایک خیال صاحبِ فکر و کشف شخص کی زندگی کا رخ موڑ دیا کرتی ہے اور اس مرتے ہوئے رخ کے پیچھے انسانی خدمت، انسانیت دوستی کے کرشمے ہی کار فرما ہوتے ہیں۔ معمولی سی بات ہے یہ سارے خیالات اور سوالات میرے ذہن میں اس لیے آئے کہ اگلے دن اللہ کریم سلامتی اور عافیت میں رکھے میرے بڑے بھائی جناب گلزار احمد بٹ (سپرنٹنڈنٹ جیل) سے ایسے موضوعات پر بات ہوئی۔ انہوں نے خود احتسابی، مراقبہ اور انسان کی اپنی ذات سے ملاقات کے لیے وقت نکالنے پر بہت سی نادر باتیں کیں بلکہ خود اپنے لیے کہنے لگے کہ اگلے روز کسی ملبوسات کی دکان پر کپڑے ٹرائی کرنے ٹرائی روم میں گئے کچھ وقت لگ گیا اور خیالات کا پنچھی کہاں سے کہاں لے گیا کہ لاکھوں ہزاروں سال اور صدیوں سے لوگ قبروں میں پڑے ہیں کئی قبریں نہ رہیں مگر روح تو کہیں نہ کہیں موجود اور تنہا ہو گی یہ تنہائی زندگی میں انسان کی دوست ہونی چاہئے کچھ لمحے تنہا سوچئے کہ میں نے کیا کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں کی، میرا مقصد کیا ہے اس مقصد حیات کے لیے میری کوشش کیا ہے، آخرت کی تعمیر کے لیے کل کی تعمیر کے لیے میں نے آج کیا کیا۔ میرا ذکر لوگ کیسے کرتے ہیں یقینا وہ اللہ کے لیے بہت اہم ہے، اس کے ذکر کے لیے میں نے کیا کیا؟ لوگ تو مطمئن ہو سکتے ہیں کہ میرا ظاہر اطمینان دیتا ہے کیا میرا باطن بھی مطمئن ہے اگر وہ مطمئن ہے تو میرا خالق بھی مطمئن ہے میرا مالک بھی مطمئن ہے۔ مجھے خیال آیا اپنے ملک کے حاکموں پر ان کے ترجمانوں، وزیروں مشیروں پر جو ہو گزرے وہ بھی جو تیار ہیں وہ بھی مگر جو قحط الحیا و حرمت اب ہے ایسا پہلے کبھی نہ دیکھا جیسا ڈالروں میں اربوں کی کرپشن کی بات نہیں سنی اور نہ ہی کسی کو اس سے کم الزام لگاتے سنا۔ جتنی خوشامد وزیر مشیر بیوروکریٹ اپنے سے اعلیٰ عہدیداروں کی کرتے ہیں اللہ کی کریں تو ولیوں میں مقام پائیں۔ حکمرانوں اور حکمران طبقوں نے سچ کو ڈکشنری سے خارج کر دیا۔ جھوٹ کی سموگ اور فوگ آگ اور دھواں کچھ اس قدر اڑایا کہ صورتیں گم ہو گئیں۔ منافقت، جھوٹ، بے انصافی، ظلمت، الزام تراشی، دشنام طرازی، ڈھٹائی، بے کسی، بے بسی، ذلتوں کی یہ دھول جب بیٹھے تو ایسا نہ ہو کہ سارے مناظر ہی بدل چکے ہوں۔ ہم 2022 کے بجائے 22ویں صدی میں نہ بس رہے ہوں۔ بہرحال بات سیاست کی طرف نکل گئی یقین سے بات چلی تھی اگر آخرت اور اللہ تعالیٰ کے ہر اچھی اور بُری تقدیر کا مالک ہونے اور اپنے آپ پر یقین ہے تو پھر کوئی غم نہیں دنیا کا غم ہو یا خوشی جیسے نیند آنے تک ہے اسی طرح بے اطمینانی یقین کے پختہ ہونے سے اطمینان میں بدل جایا کرتی ہے اور نفس مطمئنہ کی منزل مقدر بن جایا کرتی ہے خود احتسابی، مراقبہ، خود سے ملاقات اور اللہ کی مخلوق سے معاملات دراصل اللہ سے معاملات ہیں اس کا یقین!!!