یہ شہر ہمارا ہے یا اک دشت

Shakeel Amjad Sadiq, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

لندن میں آپریشن سے دو گھنٹے پہلے مریض کے کمرے میں ایک نرس داخل ہوئی اور وہاں کمرے میں رکھے ہوئے گلدستے کو درست کرتے ہوئے اس نے مریض سے پوچھا سر کون سا ڈاکٹر آپ کا آپریشن کر رہا ہے؟
مریض نے نقاہت کی حالت میں نرس کو دیکھے بغیر ہی اچاٹ سے لہجے میں کہا ڈاکٹر جبسن 
نرس نے حیرت کے ساتھ ڈاکٹر کا نام سنا اور اپنا کام چھوڑتے ہوئے مریض سے قریب ہو کر پوچھا: ”سر کیا واقعی ڈاکٹر جبسن نے آپ کا آپریشن کرنا قبول کر لیا ہے؟“
مریض نے کہا: ”جی میرا آپریشن وہی کر رہے ہیں“
نرس نے کہا: ”بہت ہی عجیب بات ہے مجھے یقین نہیں آ رہا، مریض نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا مگر اس میں ایسی کونسی عجیب بات ہے؟“
نرس نے کہا: ”در اصل اس ڈاکٹر نے اب تک ہزاروں آپریشن کئے ہیں ان کے آپریشن میں کامیابی کا تناسب سو فی صد ہے ان کی شدید مصروفیت کی بنا پر ان سے وقت لینا انتہائی دشوار کام ہوتا ہے، میں اسی لئے حیران ہو رہی ہوں کہ آپ کو کس طرح ان سے وقت مل گیا ہے؟“
مریض نے ایک طمانیت کے ساتھ نرس سے کہا: ”بہرحال یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ڈاکٹر جبسن سے وقت ملا ہے اور وہی میرا آپریشن کر رہے ہیں“۔
نرس نے ایک بار اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ ”یقین جانیے میری حیرت ابھی تک برقرار ہے کہ اس دنیا کا سب سے اچھا ڈاکٹر آپ کا آپریشن کرے گا!!“
اس گفتگو کے بعد مریض کو آپریشن تھیٹر پہنچایا گیا، مریض کا کامیاب آپریشن ہوا اور اب مریض بخیر و عافیت ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہا ہے۔۔۔!!
مریض کے کمرے میں آنے والی عورت کوئی عام نرس نہیں بلکہ اسی ہسپتال کی ایک ماہر نفسیات لیڈی ڈاکٹر تھی جس کا کام مریضوں کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر آپریشن کے لئے کچھ ایسے طریقے سے تیار اور مطمئن کرنا تھا جس کی طرف مریض کا شک بھی نہ جا سکے اور اس بار اس لیڈی ڈاکٹر نے اپنا کام مریض کے کمرے میں رکھے گلدستے کو سنوارتے سنوارتے کر دیا تھا اور مریض کے دل و دماغ میں یہ بات بہت ہی خوبصورتی سے بٹھا دی تھی کہ جو ڈاکٹر اس کا آپریشن کرے گا وہ دنیا کا مشہور اور کامیاب ترین ڈاکٹر ہے جس کا ہر آپریشن ایک کامیاب آپریشن ہوتا ہے اور ان سب باتوں سے مریض بذات خود ایک مثبت انداز میں بہتری کی طرف لوٹ آیا۔ ماضی کی دونوں حکومتیں کرپٹ ہوں گی لیکن یہ سچ ہے پاکستان پیپلز پارٹی عالمی مارکیٹ سے 147 ڈالر فی بیرل پٹرول خرید کر عوام کو86 روپے لیٹر دیتی تھی جب کہ آج کی ایمان دار حکومت کے دور میں عالمی مارکیٹ میں پٹرول 84 ڈالر فی بیرل ہے لیکن یہ ملک میں 138روپے فی لیٹر دے رہے ہیں‘ آصف علی زرداری کے کرپٹ دور میں ڈالر98 روپے میں ملتا تھا، آٹا 40روپے کلو تھا، بجلی کے نرخ 9 روپے یونٹ تھے۔
چینی60 روپے کلو تھی اور کھانے کا تیل 200 روپے لیٹر تھا لیکن آج کے ایمان دار دور میں کوکنگ آئل 360 روپے لیٹر، چینی115روپے کلو، بجلی اوسطاً17 روپے 83پیسے فی یونٹ، آٹا 80روپے اور ڈالر 175 روپے میں مل رہا ہے اور صادق اور امین حکومت اس کے باوجود اعلان کر رہی ہے حالات اگلے جون تک بہتر نہیں ہو سکیں گے، آج عمران خان کے دائیں بائیں جتنے امیر اور رئیس لوگ کھڑے ہیں، یہ تمام لوگ آصف علی زرداری کے دور میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس سے امیر ہوئے تھے لہٰذا پیپلز پارٹی کی حکومت اگر انڈسٹری کو ریلیف نہ دیتی تو آج عمران خان کا ایک بھی ڈونر موجود نہ ہوتا امید دلانا اور مثبت سوچنے پر مجبور کرنے کے لئے آپ کا ماہر نفسیات ہونا ضروری نہیں، کسی مایوس شخص کو تسلی اور خوش امیدی کے دو بول جادوئی اثر اور وہ توانائی دیتے ہیں جو کسی دوا میں نہیں اس لئے اچھا بولیئے نئی امید دلائیے شاید آپ کے چند لفظ کسی کو دوبارہ زندگی کی طرف لوٹا دیں۔ کسی کی زندگی میں خوشی کی لہر دوڑا دیں۔ یہ غریب اور ذہنی طور پر مفلوج عوام ایسے ہی کسی ماہر نفسیات سیاسی نجات دہندہ کی منتظر ہے۔ بقول پروفیسر رضااللہ حیدر
کیا شام ڈھلے وقتِ سحر سیکھ رہی ہیں 
آنکھیں مری رونے کا ہنر سیکھ رہی ہیں 
بے سمت فضاؤں میں نئی نسلیں پریشاں 
کیا سیکھ رہی ہیں یہ اگر سیکھ رہی ہیں 
یہ شہر ہمارا ہے یا اک دشت رضا ہے
سوچیں بھی یہاں دہشت و ڈر سیکھ رہی ہیں