مہنگائی در مہنگائی!

Sajid Hussain Malik, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

عام اشیائے صرف کی قیمتوں، یوٹیلٹی بلوں، پٹرولیم مصنوعات اور روزمرہ استعمال کی دیگر چیزوں کی قیمتوں میں جتنااضافہ ہو چکا ہے۔ بچہ بچہ اس سے آگاہ ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی ملک کی تقریباً دو کروڑ آبادی مہنگائی کے ہاتھوں اس حد تک تنگ ہے کہ گلی کوچوں، سڑکوں چوراہوں اور گھروں کے دروازوں کے سامنے گڑگڑا کر ہاتھ پھیلانے اور جھولیوں میں کچھ ڈالنے کی التجائیں کرنے والوں کی تعداد میں ہی اضافہ نہیں ہو چکا ہے بلکہ متوسط اور نچلے متوسط طبقوں کے لیے بھی اپنی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے زندگی کے شب و روز گزارنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ تقریبا ً سبھی اشیائے صرف کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ وہ عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ قیمتوں میں اضافے کی تفصیل بیان کرنا مشکل ہے کہ آپ کوئی چیز خرید کر لاتے ہیں اور ہفتہ دس دن بعد دوبارہ اسی چیز کی خریداری کرتے ہیں تو قیمت میں کم از کم دس بارہ فیصد تک اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ بناسپتی گھی، کوکنگ آئل، چینی، آٹا، چاول، دالیں، صابن، شیمپو، مر چ مصالحے اور ٹوتھ پیسٹ وغیرہ ہر گھرانے کی ضرورت ہیں۔ آٹا چکی سے لیا جائے تو 80، 85روپے کلو سے کم نہیں۔ فلور ملز کی طرف سے 10اور 20کلو کے تھیلوں میں بند آٹا جو معیار میں انتہائی ناقص سمجھا جاتا ہے وہ بھی 45، 50روپے کلو سے کم قیمت پر دستیاب نہیں ہے۔ سستے سے سستے اور کم معیاری سمجھے جانے والے برانڈز کے کوکنگ آئل اور بناسپتی گھی کے 5کلو یا 5لیٹر کے بند ڈبوں کی قیمت 1600روپے سے زائد ہے۔چینی 100روپے فی کلوسے کم میں نہیں ملتی۔ باقی چیزیں جن میں صابن، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، مرچ مسالے، دالیں اور چاول وغیرہ ان سب کی قیمتوں میں بھی پچھلے دو تین سال کے دوران کم و بیش 20سے 30فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے جہاں موٹر سائیکل اور کاریں وغیرہ استعمال کرنے والوں کے اخراجات بڑھ گئے ہیں وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں کے ساتھ کیرج اور باربرداری کے اخراجا ت میں بھی اضافہ ہو چکاہے۔اس کاعام لوگ جن میں کم آمدنی والے یا نچلے متوسط طبقات وغیرہ شامل ہیں براہ راست نشانہ بنے ہوئے ہیں۔کیا اس کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے یہاں بفضل تعالیٰ سبزیاں پھل وغیرہ بکثرت پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کیرج اور باربرداری کے اخراجات میں اضافہ ہونا ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ عام استعمال اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ہی اضافہ نہیں ہوا ہے یا ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں مزید اضافہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ دیکھا جائے تو ہر قسم کے اشیاء کی قیمتوں میں آگ لگی ہوئی ہے اور وہ آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ آسمان تک پہنچنا یا آگ لگنا کے محاورے تو سن رکھے تھے ان کا عملی استعمال کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ اسے اپنی خوش قسمتی سمجھا جائے یا بد نصیبی گرداناجائے کہ اب عمر رواں جب بظاہر تمام ہونے کو ہے ان محاوروں کا عملی استعمال بھی دیکھ لیا ہے۔ پٹرول کی قیمت 138روپے فی لیٹر اور ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قمت 134روپے فی لیٹر اور LPGکے گھریلو سلنڈر کی قیمت 2400روپے سے زائد ہو چکی ہے۔ زندگی میں کبھی سوچا تک نہیں تھا کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں اس حد تک اضافہ ہو جائے گا۔ پچھلی صدی کے 70کے عشرے میں موٹر سائیکل کا استعمال شروع کیا اس وقت پٹرول پمپوں سے پٹرول اور ڈیزل لیٹر کے بجائے گیلن میں ماپے جاتے تھے۔ ایک گیلن میں تقریباً ساڑھے چار لیٹر (4.6) آتے ہیں۔ اُس وقت ایک گیلن پٹرول کی قیمت 13یا 14روپے ہوا کرتی تھی۔ نوے کے عشرے میں سوزوکی FXٰؒ لی تو اس کی 20لیٹر سے زائد گنجائش رکھنے والی ٹینکی تین، سوا تین سو روپوں میں بھر جاتی تھی۔ بعد میں پٹرولیم مصنوعات (پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل) کی قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوتا رہا لیکن پٹرول کے نرخ نہ تو پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں جب عالمی منڈی میں اس کے نرخ موجودہ نرخوں کے مقابلے میں تقریبا ً دو گنا تھے پھر بھی پٹرول کے نرخ 110روپے لیٹر سے بڑھنے نہ پائے۔ میاں محمد نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو عالمی منڈی میں پٹرولیم کی نرخوں میں کمی ہوئی تو ہمارے ہاں بھی اس کے نرخ کم ہو کر 65روپے فی لیٹر تک آگئے۔ تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوگیا۔ ڈیڑھ دو سال قبل عالمی منڈی میں پٹرول کے نرخ کم ہونے کی بنا پر یہاں پر بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیاتو اس پر عمل در آمد کرنے کے بجائے پٹرولیم کمپنیوں نے حکومتی عہدے داروں کی ملی بھگت سے پٹرول کی عدم دستیابی کا بحران پیدا کر دیا۔ جناب وزیر اعظم نے اس سے سختی سے نمٹنے اور ذمہ داروں کو کیفر کر دار تک پہنچانے کے دعوے تو کیے لیکن ان کا اُلٹا اثر ہوا کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بیک وقت 20روپے فی لیٹرتک اضافہ کر دیا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی یہ تفصیل بیان کرتے رہے تو ختم ہونے میں نہیں آئے گی۔اب ذرا بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی طرف آتے ہیں۔
میرے سامنے بجلی کا ماہ اکتوبر کا بل رکھا ہوا ہے اس میں استعمال شدہ 314یونٹوں میں سے 270یونٹوں کی قیمت 16.33روپے فی یونٹ اور 44یونٹوں کی قیمت 22.65روپے فی یونٹ لگا کر بجلی کی کل لاگت 5406.70 روپے دکھائی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ 8مزید ٹیکس لگا کر اس کو موجودہ بل کے طور پر 7221روپے تک بڑھایا گیا ہے۔ بجلی کمپنی (IESCO)کی مالی ہوس یا صارفین 
پر مالی بوجھ ڈالنے کا معمول اور روش اسی پر ختم نہیں ہوتی بل میں ٹوٹل فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر مزید 1225روپے کا اضافہ بھی دکھایا گیاہے۔ اس طرح موجودہ بل 8446روپے تک بڑھا دیا گیاہے۔ جو مقررہ تاریخ تک جمع کرانا ضروری ہے۔ مزے کی بات ہے بل میں شامل جن آٹھ ٹیکسوں کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر 1031روپے پہلے ہی شامل ہیں اور اس کے بعد ٹوٹل فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام 1225روپے مزید شامل کرنا اس کا کیا جواز ہے شاید وزیر توانائی جناب حماد اظہر یا شہباز گل اور فرخ حبیب جیسے حکومتی ترجمان اس کی وضاحت کر سکیں ورنہ یہ عام آدمی کے سمجھنے کی بات نہیں ہے۔ بجلی کے نرخوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس حکومت کے ہوتے ہوئے اس میں ٹھہراؤ کے کوئی اثار نہیں ہیں۔تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ لوڈ شیڈنگ سے بڑی حد تک نجات ملی ہوئی ہے جس کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کی حکومت کو جاتا ہے جس نے کم و بیش 12، 13ہزار میگاواٹس پیداوار کے بجلی کے منصوبے مکمل کیے ورنہ اب تک ہم لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا سامنا کر رہے ہوتے۔ 
گیس کے ساتھ بھی کچھ اس طرح کا معاملہ ہو رہا ہے سردیاں ابھی پوری طرح شروع نہیں ہوئی ہیں کہ گیس کی قلت سامنے آگئی ہے۔سردیوں میں گھروں میں گیس کا استعمال بڑھ جانے سے گیس کی کھپت میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن حکومتی بزرجمہر یہ خوشخبری سنا رہے ہیں کہ سردیوں میں صنعتی استعمال کے ساتھ گھریلو استعمال کے لیے وافر مقدار میں گیس دستیاب نہیں ہوگی اور اس کے ساتھ اگلے چند ماہ میں گیس کے نرخوں میں اضافہ بھی ہو جائے گا۔ اس کی بڑی وجہ حکومتی بد انتظامی ہے کیا اس حقیقت کو رد کیا جا سکتا ہے کہ حکومتی ذمہ داران نے سردیوں کے مہینوں کے لیے قطر کی گیس سپلائی کرنے والی کمپنیوں سے بروقت ایل این جی کے سودے نہیں کیے اور اس وقت سودے کیے جب ایل این جی کے نرخوں میں اضافہ ہو چکا تھا۔غرضیکہ کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔ سرکاری ترجمان تسلیم کرتے ہیں کہ پچھلے ہفتے کے دوران ہفتہ وار مہنگائی میں 1.38اضافہ ہوا ہے جبکہ سالانہ بنیادوں پر 14.48فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ یقینا یہ اضافہ کچھ کم نہیں ہے لیکن حقیقی اضافہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے اور اللہ جانے اگلے دنوں میں اور کتنے اضافوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔