سیارے اتر رہے ہیں تم پر یہ آسمان سے

Asif Anayat, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

زمین کے جس حصہ پر وطن عزیز ہے، کے حالات پر دیگر سیارے زہرہ، مشتری، زحل، ہائی منظومہ شمسی، سیارہ ہا، عطارد، مریخ، رمدی ازدواج، کوجا دو،شا چیست، سیارہ راہو چیست، راہو وکیتو، نود شمالی درجات تولا وغیرہ گویا سب کے سب باہم مشورہ اور پریشان ہیں کہ ہم تو اپنی اپنی منزلوں کی طرف جانب رواں دوا ں ہیں حکم ربی سے کائنات کا نظام چل رہا ہے یہ سیارہ زمین کے حصہ پاکستان میں ہماری باتیں اور ہم پہ لڑائیاں کیوں ہونے لگیں!
دراصل خوابوں کی تعبیر، ستاروں اور سیاروں کی چال، شب گھڑی، نحس گھڑی ستارہ پرستی کی ایک تاریخ رہی ہے اور کائنات کے نظام کے ارتقا میں اس کا منفی یا مثبت بڑا عمل دخل رہا ہے جو ابھی تک ہے۔ یہ جمہوریت تو دو ڈھائی ہزار سال کا قصہ ہے اور اب بھی پوری دنیا میں جزوی طور پر نافذ ہے۔ ستاروں اور شاہوں کی چال کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے جہاں یہ چالیں بگڑیں تو سلطنتیں تہہ و بالا ہو گئیں۔ مگر قابل فکر و ذکر بات یہ ہے کہ پہلے حکمرانوں کی چالیں بگڑتی ہیں پھر ستارے یا سیارے منہ موڑتے ہیں انسان اپنے اعمال کی بدولت خسارے میں آتا ہے۔ 
قدرت کے کارخانے میں ہر سوچ، ہر فکر، ہر نوع کے لوگ آباد ہیں زمین جو ایک سیارہ ہی ہے جبکہ اللہ کی کائنات کے درجنوں سیارے چاند سورج مریخ وغیرہ سب کے سب اپنے اپنے کام اور منزلوں کی طرف گامزن ہیں۔ ہر علم موجود ہے عالم پر اور اس کی حیثیت اور قابلیت و اہلیت اور دیانت داری پر سوال اٹھ سکتا ہے، سائنس، تاریخ، فلکیات، معدنیات، زمین، سمندر، ٹیکنالوجی، حربی، عسکری، طبی علوم وغیرہ اتنے کہ کوئی شمار نہیں۔ اب میں نے حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر میڈیا پرسنز اور سیاستدانوں کو زمین کے علاوہ سیاروں کی چالوں پر الجھتے دیکھا تو حیران رہ گیا کہ یہ سب کیوں ہے پھر میں نے ایک دوست عبدالمنان اولیا گوجرانوالہ سے تعلق ہے سے رابطہ کیا وہ سیاروں ستاروں کے علوم و علم فلکیات کے ماہر گردانے جاتے ہیں۔ ان سے بات کی انہوں 4 سورج و چاند گرہن 2021ء میں لگنے کی خبر دی کہ دو لگ چکے دو لگنے ہیں۔ پھر انہوں نے ذاتی، دوست، عزیز داری، گھر والے، اولاد، امراض، شادی، حالات، سفر، دوست، دشمن کے ساتھ مختلف خانوں (گھروں) میں بیٹھے ہوئے سیارے بتائے اور کچھ یوں کہ میں خود گھوم گیا مجھے اپنا آپ سیاروں میں گھومتا محسوس ہونے لگا میں نے ان سے کہا کہ میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا۔ انہوں نے ایک زائچہ بنا دیا۔ 
میں نے کئی دیگر لوگوں سے بات کی۔ انہوں 
نے اپنے تجربے علم اور بین الاقوامی صورت حال کے پیش نظر کہا کہ پاکستان کے حالات جلد بہتر ہوں گے اور افواج پاکستان کا وقار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا وقار بھی بحال ہو گا اب حکومت کس کی ہو گی یہ اللہ کو معلوم ہے۔ میں نے اپنے مشاہدے میں لوگوں کو جوتشیوں، ماہر علم فلکیات کی بتائی ہوئی باتیں کچھ سچی اور کافی جھوٹی ثابت ہوتی ہوئی دیکھیں۔ علم الاعداد کے ماہرین بھی کافی درست نشاندہی کرتے رہے ہیں مگر اکثر اوقات بالکل ہی پٹڑی سے اترے پائے گئے ہیں۔ ہزاروں سال کی تاریخ میں بلاشبہ ان حوالوں کا بہت ذکر ہے۔ بڑی بڑی جنگ واقعات سانحات اور معجزات اس علم کی بدولت دنیا میں وقوع پذیر ہونے سے پہلے واضح کر دیئے گئے۔ مگر کبھی بھی کوئی چیز یا واقعہ جو بری اور اچھی تقدیر یعنی اللہ کی جانب سے نہ ہو باقی سب حکمت عملی اور اسباب کی بدولت ہوا کرتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے ”ہم نے ہر چیز کی تقدیر مقرر (لکھ) دی ہے وقت مقررہ تک وہ قائم رہے گی اور پھر فہم ہو جائے گی (مفہوم) گویا ملک معاشرے اور انسان ہی انہیں چیزوں کی بھی تقدیر ہوا کرتی ہے جو صرف اللہ کو معلوم ہے۔ 
سواری، زمین اور شریک زندگی بھی راس آنے کی باتیں ہیں ان کا انسانی زندگی پر اثر دیکھا گیا۔ کوئی مجھے لاکھ کہے لیکن ذاتی طور پر کشف، تصوف اور علم فلکیات قرآنی آیات مبارکہ کے وظائف اور دعا جات سے قائل ہوں المیہ یہ ہے کہ اس حوالے سے لوگوں نے دکانیں کھول رکھیں یہ تو الگ نگر ہیں۔ لوگ اولیاء و عارفین کی دکانیں کھول کر بیٹھے ہیں۔ اللہ کے پیغامات، پیغامبر ادیان، زمین پر انسانی علوم و جدوجہد نے ایک ارتقائی عمل سے گزر کر آج کا جہاں آباد کیا۔ انسانی نیت کو بہکنے سے بچانے کے لیے اللہ نے دین اسلام کو آقا کریمؐ کے ذریعے مکمل کیا۔ آقا کریم ﷺ کا فرمان ہے    ”جوکسی کاہن کے پاس گیا اس نے انکار کیا اس پر ایمان نہ لایا جو محمد رسولؐ پر نازل ہوئی“ (مفہوم) 
حضرت علیؓ کا قول کہ ”تدبیر بعض اوقات موت کا سبب بن جایا کرتی ہے“ حاکموں کی تدبیریں اور ظالموں کی تدبیریں ہم نے موت کا سبب بنتے دیکھیں۔ اللہ نے انسانوں کو پیغمبروں کے ذریعے اپنی الہامی کتابوں کے ذریعے صالحین کے ذریعے ہدایت عطا فرمائی۔ انسانوں نے آئین، قوانین، روایات اور نظام ہائے مملکت بنائے، انسانی معاشرے تشکیل دیئے، انسانوں جانوروں حتیٰ کہ چیزوں کے حقوق کا تعین کیا اور اس کے لیے قائدے کلیے بنائے۔ تاکہ انسان اللہ کے نائب کی ذمہ داریاں اس کے بتائے ہوئے طریقے اور ان کی روشنی میں بنائے گئے قوانین کے تابع زندگیاں گزاریں۔ قرآن کریم میں ارشا د ہے ”کوئی نہیں جانتا وہ اگلے لمحے کیا کمائی کرنے والا یا کیا نقصان اٹھانے والا ہے“۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ”کوئی نہیں جانتا کل کیا ہو گا“۔ 
مغل بادشاہ ہمایوں علم فلکیات اور ستاروں کی چال کا ماہر تھا۔ ستاروں کی طرف ہی دھیان تھا کہ سیڑھی سے قلابازی کھا کر گرا اور دم توڑ گیا، ستاروں کی چال اس کے کام نہ آئی۔ اگلے لمحے قدرت کی چال سے لاعلم تھا۔ ”ایک چال اللہ کی چال ہے اور ایک انسان کی یقینا اللہ کی چال بہتر اور کامیاب ہے“۔ (مفہوم) میں نے شبھ گھڑی دیکھ کر شادی بیاہ بندھن کو طلاقوں پر منتج ہوتے ہوئے دیکھا۔ 
کیا کوئی سیارہ، کوئی ستارہ کوئی طریقہ موجودہ حکمرانوں کے حکومت میں آنے سے پہلے دعوے، وعدے اور گزرے ہوئے وقت واپس لا سکتا ہے ہرگز نہیں تو آئندہ کیا ہو گا آج کی حکمت عملی کے علاوہ کچھ نہیں۔ وزیراعظم آئین میں اپنے حقوق سے بخوبی واقف ہیں۔ دوسرے اداروں، اپوزیشن، اور پاکستانی عوام کے حقوق سے بے خبر کیوں ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت اور تدبیر کسی کے باطن کو چھپا نہیں سکتی انکشاف ہو کر رہتا ہے۔ ذاتی حوالے سے کوئی کسی کا نیابت دار ہو، مقلد، پیروکار ہو کوئی قدغن نہیں جو مرضی کرتا پھرے لیکن ملکی معاملات میں ایسے حوالے زیر بحث آنا یا موضوع بننا اجتماعی بدنصیبی ہو گا۔ آئین، قانون یا قانون ساز ادارے اور عوام کی حاکمیت کا بول بالا ہونا چاہیے اسی میں فلاح ہے اسی میں بقا ہے۔