پاکستان کیسے چلے گا؟

 پاکستان کیسے چلے گا؟

 ایس ایم منیر صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کے باپ کے طور پر جانے جاتے ہیں،ہم سب ان کی رہائش گاہ پر ایک پرتکلف عشائیے میں تھے جس کے مہمان خصوصی گورنر بلیغ الرحمان تھے اورتقریب کا دعوت نامہ ایس ایم تنویز، ایس ایم عمران اور جناب گوہر اعجاز کی طرف سے تھا۔ ایس ایم منیر بہت سادہ سی بات کرتے ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ ملک جن معاشی مشکلات کا شکار ہے ان میں انہی لوگوں سے پوچھا جانا چاہئے جو معیشت اور اقتصادیات کو چلا رہے ہیں۔ تقریب میں سینکڑوں کی تعداد میں کاروباری شخصیات کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی تھے اور اسی موقعے پراپٹما کے سرپرست اعلیٰ گوہر اعجاز کی تقریر نے چونکا بھی دیا اور تشویش میں بھی مبتلا کر دیا۔
 گوہر اعجاز نے ایک سیانے کاروباری بندے کی طرح کوئی راکٹ سائنس بیان نہیں کی بلکہ دو جمع دو کی طرح سیدھا سادا حساب کتاب کیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان کا کل بجٹ دس ہزار ٹریلین ہے اوراس میں سے سات ہزار ٹریلین کے بارے کہا جا رہا ہے کہ ٹیکس کلیکشن سے جمع ہوں گے جبکہ تین ہزار ٹریلین دیگر ذرائع سے اکٹھا کیا جائے گا۔ اب یہ بحث الگ ہے کہ ہم دس ہزار ٹریلین اس مالی سال میں اکٹھے بھی کر پائیں گے یا نہیں۔ ہم گمان رکھتے ہیں کہ یہ رقم اکٹھی ہوجائے گی مگر ان جمع کئے ہوئے سات ٹریلین روپوں میں سے آدھے یعنی ساڑھے تین ٹریلین روپے آئین کے مطابق صوبوں کو دینے ہوں گے اور وفاق کے پاس باقی کوئی چھ، ساڑھے چھ ٹریلین بچیں گے۔ا ن چھ ٹریلین سے کچھ زائد رقم میں سے اگر ہم اپنے قرضوں پر صرف سود کی ادائیگی کا حساب کتاب لگائیں تو وہ پانچ ٹریلین (فور پوائنٹ ایٹ ٹریلین) بنتے ہیں جو ریاست کو ادا کرنے ہیں۔ یہ پانچ ٹریلین بھی نکال دیں تو باقی ایک سے ڈیڑھ ٹریلین بچتے ہیں اور اس میں ابھی قرضوں کی واپسی شامل نہیں جس کے بارے ہم پر امید ہیں کہ انہیں ری شیڈول کروا لیں گے اور فوری واپس دینے والی قسط سے بچ جائیں گے، چلیں، ایسا ہی ہو گا مگر پاکستان کو چلانے کے لئے بھی کوئی چھ ٹریلین روپوں کی ضرورت ہے جبکہ ہمارے پاس ایک، ڈیڑھ ٹریلین بچتے ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہی ہوگا کہ ہمیں اپنی ریاست کو چلانے کے لئے مزید قرض لینا پڑے گا ا ور جب ہم اگلے برس بجٹ بنانے اور پھر اس کے بعد انتخابات میں جا رہے ہوں گے توہم پر قرضوں کابوجھ مزید بڑھ چکا ہو گا اور ظاہر ہے کہ حکومت کو انتخابات سے پہلے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف دینا پڑے گاجس کا خرچہ الگ سے ہوگا۔
گوہر اعجازکا حساب کتاب بہت سادہ تھا، وہ کہہ رہے تھے کہ80 ارب ڈالرکی امپورٹ ہے جبکہ 32 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ، 32 ارب ڈالر کی ہی ریمیٹنسز آجائیں تویہ کل 64 ارب ڈالر بنے، باقی 16 ارب ڈالر کہاں سے آئیں گے اور اس کے لئے ہمیں یا تو اپنی امپورٹس کم کرنا پڑیں گی یا اپنی ایکسپورٹس بڑھانا پڑیں گی۔ وہ مطمئن تھے کہ حکومت نے ریجنل انرجی ٹیرف کو نو سینٹ پر رکھا ہے مگر دوسری طرف وہ پریشان تھے کہ سردیاں آنے والی ہیں اور حکومت لوگوں کو گھروں میں گیزر چلا کر نہانے کے لئے گیس تو دے دے گی مگر صنعتوں کی گیس بند کر دی جائے گی۔ وہ اس پر بھی پریشان تھے کہ دنیا بھر میں اس وقت کساد بازاری ہے اور پاکستان کی سب سے بڑی اور اہم ایکسپورٹ ٹیکسٹائل ہے۔ ان کا تجزیہ تھا کہ اس کساد بازاری میں دنیا بھر میں لوگ سب سے پہلے اپنے کھانے پینے، صحت اور تعلیم کے اخراجات پر خرچ کریں گے اور کپڑے ان کی کم ترجیح ہوجائیں گے لہذا پاکستان کی برآمدات کو دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ 1981میں ڈالر دس روپے کا تھا اور 2018 میں 120 روپوں کا ہو گیا یعنی کوئی چالیس برس کے عرصے میں اس کی یہ ڈی ویلیوایشن ہوئی مگر 2018 سے اب چار برسوں میں یہ 240 پر پہنچ گیا یعنی چالیس برسوں والی ڈی ویلیوایشن کے برابر چا ر برسوں میں ہو گئی۔ وہ درست کہہ رہے تھے کہ آج دنیا کی جنگ فوجوں کی نہیں ہے، آج معیشتوں کی جنگیں ہیں جنہیں ان کے سرمایہ کار اور صنعتکار مل کر لڑتے ہیں، اب پاکستان کو کسی دوسرے نے نہیں بلکہ خود ہم پاکستانیوں نے بچانا ہے کیونکہ سب دوستوں سے تو ہم قرض لے چکے، اب کسی کے پاس غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے پاکستان کا ڈالر اور معیشت کی بات کرتے ہوئے پاکستان کا انڈیا اور بنگلہ دیش کے ساتھ دل دہلا دینے والا موازنہ کیا اور ان کا یہ فقرہ ابھی تک میرے دل میں چبھا ہوا ہے کہ ہندوستانی اور بنگلہ دیشی جتنا اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں ہم پاکستانی نہیں کرتے۔ جناب گوہر اعجاز نے اس موقعے پر سود کے خلاف بھی بات کی کہ یہ واضح طورپر حرام ہے اور اسے ماں کے ساتھ زنا کے برابر قرار دیا گیا ہے مگر میں انتظار میں ہوں کہ ہمارے دوست سود کا متبادل پیش کریں کیونکہ نفع و نقصان میں شراکت والا فارمولہ اگر اصل میں لگا دیا جائے تو بہت سارے غریبوں کی جمع پونجی کچھ فراڈئیے چھین کے بھاگ نکلیں کیونکہ یقینی طور پر ہم ایک اچھا اور ایماندار معاشرہ اور ریاست نہیں ہیں۔
تجویز یہ ہے کہ سیاسی استحکام ہو، پالیسیوں میں تسلسل ہو اور سیاسی جماعتیں آپس میں سیاسی معاملات پر چاہے لڑتی رہیں مگر کسی ایک اکنامک ایجنڈے پراتفاق کر لیں۔ وہ جس وقت یہ باتیں کر رہے تھے اسی روز جناب عمران خان کہہ رہے تھے کہ وہ جمعے کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیں گے یعنی اگر آپ سیاسی استحکام چاہتے ہیں تو وہ فی الحال ممکن نہیں ہے۔ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ عام انتخابات جب بھی ہوئے اگر عمران خان نہ جیتے تو وہ ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے اور اگر جیت گئے تو ہمارے سامنے ان کی چار برس کی کارکردگی موجود ہے۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان بطور شخص اچھے اور نیک آدمی ہیں، انہوں نے بہت ساری باتوں کے جواب دئیے مگر وہ کتنے بااختیار ہیں اور کتنی بات کر سکتے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔وہ سرمایہ کاروں اورصنعتکاروں سے کہہ رہے تھے کہ وہ ہر حکومت سے تعاون ضرور کریں مگر یہ فیصلہ بھی کریں کہ ملک کے مفاد میں کس نے کام کیا ہے۔
میں عشائیے سے واپس آیا تو ساری جمع تفریق دماغ میں گھوم رہی تھی اور میرا خیال ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو کہ ایک چارٹرڈ اکاونٹنٹ بھی ہیں ان کے سامنے اسی جمع تفریق کے نتائج زیادہ واضح اندا زمیں لکھے ہوئے ہوں گے۔ گوہر اعجاز کہہ رہے تھے کہ ہمیں اپنی ایکسپورٹس کو سو بلین پر لے جانا ہوگا یعنی جتنی ہیں اس سے ٹرپل ہوجائیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ اس وقت ہماری زراعت تباہ ہو رہی ہے اور حالات یہ ہوگئے ہیں کہ ہمیں اپنی ایکسپورٹس کے لئے خام مال درامد کرنا پڑتا ہے یعنی ڈالر کمانے سے پہلے ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ میں نے رات دیر تک اس پر سوچتے ہوئے خودکو سمجھایا کہ ہمیں ابھی اسی پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہم تیس مئی کی شام کو ڈیفالٹ ہونے بچ گئے، ہم پٹرولیم مصنوعات درامد کر رہے ہیں، ہمارے کارخانے چل رہے ہیں، ہم بجلی بنا رہے ہیں۔ سو اسی پر خود کو شاباش دیتے ہیں یہ پھر کبھی سوچیں گے کہ جن کی آمدن بہت کم اور اخراجات بہت زیادہ ہوں وہ گھرکیسے چلتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں