مذہب اور سیکولرزم

مذہب اور سیکولرزم

دور حاضر میں سیکولرازم کے نظریے کو ایسا زبردست فروغ حاصل ہو ا کہ امریکہ اور یورپ کے ممالک کی حکومتوں نے اس کو ریاستی اور سیاسی امور میں بنیادی نظریے کے طور پر تسلیم کر لیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس نظریے کا فروغ متعدد ممالک میں ہوچکا ہے ۔ سیاست سے قطع نظر سماجی اورفکری میدانوں میں بھی اس نظریے کے اثرات کا غلبہ اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ عہد حاضر میں بھی روشن خیالی اور سیکولرزم کو لازم و ملزوم سمجھا جانے لگا۔لیکن سیکولرازم کے اس فروغ عام کے باوجود اس کے مفہوم اور تشریح میں بہت زیادہ الجھاﺅ اور اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ جس کا اظہا ر اس موضوع پر قلم اٹھانے والے متعدد مصنفین اپنی تحریروں میں جا بجا کرتے رہتے ہیں ۔

ڈاکٹر مشیر الحق اپنی تصنیف ” مسلمان اور سیکولر ہندوستان“کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ”ہر طرف سے سیکولر نظریات اور سیکولرازم کی آوازیں تو آتی رہتی ہیں لیکن متعین طور سے یہ نہ معلوم ہو سکا کہ سیکولرزم ہے کیا۔۔۔۔ جلد ہی سیکولرازم ایک ایسا مبہم نظریہ بن کر رہ گیا جس کی تشریح میں ہر شخص آزاد تھا۔“
اس سلسلے میں ڈاکٹر اختر بستوی لکھتے ہیں ” سیکولرازم کے مفہوم کے بارے میں الجھاﺅ اور اختلاف رائے کا ایک سبب یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں سیکولرازم کا تصور صدیوں سے ارتقاءپزیر رہاہے اور اس نے مختلف ممالک اور مختلف ادوار میں مختلف سمتیں اختیار کی ہیں،کبھی اس کا رخ منفی سیکولرازم کی طرف رہاہے جس نے مذہب کی نفی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی روش اپنائی ہے اور کبھی اس نے مثبت رخ اختیار کر کے مذہب کی اہمیت ، اس کے اپنے مخصوص دائرے میں تسلیم کرنے اور مذہبی رواداری پر زور دینے کا رویہ اپنا یا ہے ۔“
چنانچہ انسانی زندگی میں مذہب کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔اللہ تعالی نے انسان کواس دنیا میں بھیجا اور جہاں انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام کیا وہیں اس کی روحانی ضروریات کا بھی بندوبست کیا تاکہ روح سکون و اطمنا ن میں رہے ۔انسان کی دنیاوی اور اخروی زندگی کی فلاح کے لیے رب تعالی نے کم وبیش 1لاکھ 24ہزار انبیاءو رسل مبعوث فرمائے ۔جس طرح مادی ضروریات انسانی زندگی کےلیے ناگزیر ہیں اسی طرح انسان اپنے اندر روح رکھتا ہے اور روح کی غذا عبادت ہے اور عبادت کے بغیر انسان ، انسان نہیں بلکہ حیوان ہے ۔انسانی زندگی میں معاشیات یا معاشی نظام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔

سیکولرازم کے فروغ سے قبل مغرب و یورپ میں مذہبی تعلیمات اور اثرات کے باعث معاشیات کے ضمن میں حلا ل و حرام کا تصور موجو د تھا۔جبکہ جدید سیکولر معاشی نظام جائز و ناجائز اور حلا ل و حرام کے تصورات سے پرے ہے ۔ سیکولرزم نے تعلیمی نظام میںبھی مذہب کے اثرات ختم کیے ہیں مثلا یورپ کے روایتی اور مذہبی معاشرے میں اگر ہم تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ اس دور میں عیسائی خانقاہیں ہی تعلیم وتعلم کا مرکز تھیں اور اس دور میں خالص رنگ میں رنگی ہوئی تھیں جبکہ سیکولر تعلیمی نظام کو لادینی بنیادوں پر استوار کیا گیا ۔جیساکہ ’دی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری‘ میں سیکولر تعلیمی نظام سے متعلق حسب ذیل الفاظ ملتے ہیں ۔

”OF EDUCATION, INSTRUCTION RELATING TO NON-RELIGIOUS.'' ٰیعنی سیکولرازم نے ”تعلیم کے ضمن میں غیر مذہبی مضامین (پڑھانے)کی ہدایت کی۔“مزکورہ بالا بحث کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اگر مذہب کو اجتماعی امور سے بے دخل کرکے نجی زندگی تک محدود کردیں تو پھر مذہب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟؟ سیکولرزم کی اصطلاح کا بانی ہولی اوک(holyoake) جس نے باقاعدہ سیکولرزم کی تحریک کا آغاز کیا ۔اگر ہم اس کے نظریات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ اس نے مذہب کا انکار نہیں کیا اس نے مذہب اور سیکولرزم کو ایک دوسر ے کا حریف قرار نہیں دیا ۔مگر آج اس دورمیں بعض ایسے بھی مفکرین نظر آتے ہیں جنہوں نے شدت سے مذہب کا انکار کیا ۔
اسلام نے معاشی سرگرمیوں سے متعلق بھی واضح ہدایات فراہم کی ہیں۔معاشی نظام کے ضمن میں حلال و حرام کے درمیان واضح فرق کیا ہے اور ہر اس ذرائع آمدنی کو حرام ٹھہرایا جو ظلم کا باعث بنے ۔اسلام نے رزق حلا ل کی بار بار تلقین کی ہے اور ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقوں سے کھانے کی سختی سے ممانعت کی ہے ۔تجارت کے معاملے میں قرآن حکیم کی اصولی ہدایت یہ ہے کہ!
ترجمہ:اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاﺅ مگر یہ کہ آپس کی رضا مندی سے تجارت ہو اور آپس میں خونریزی نہ کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے ۔(النساءآیت29)
پس ثابت ہوا کہ اسلام دین و دنیا دونوں کی بھلائی کا ضامن ہے ۔یعنی اسلام اپنے ماننے والوں کو صرف آخرت کی زندگی ہی سنوارنے کی تلقین نہیں کرتا بلکہ آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھلائی اور بہتری کی طرف رہنمائی بھی کرتاہے ۔

لکھاری کے بارے میں :سراج احمد تنولی نوجوان صحافی ،کالم نگار، بلاگر ہیں

بلاگ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے۔نیونیوز نیٹ ورک کا بلاگر کی رائے اور نیچے آنے والے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔